Dho-Ke Khaiye
دھو - کے کھائیے

بانو قدسیہ سے تعارف بھی اتنا ہی پرانا ہےجتنا باباجی اشفاق احمد صاحب سے ہے۔ لیکن ان کا شہرہ آفاق ناول "راجہ گدھ" جن حالات میں پڑھا وہ بھی صرف ہمارا ہی خاصہ تھا۔ معمولی غدودانِ معدہ کا بندہ یہ حرکت کبھی نہیں کر سکتا۔ ہمارے ہاں دیوانے کو الو سے اس بات میں ملایا جاتا ہے کہ دونوں ساری رات جاگتے ہیں لیکن اگر اس رتجگے کو ہی بنیاد بنایا جائے تو اس زمرے میں یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہنے والے طلباء بھی لازماً شمار ہونے چاہئیں۔ ان کے ہاں بھی لاہور اور کراچی کی طرح دن سست اور راتیں جاگتی ہیں۔ بالخصوص امتحانوں کے دنوں میں تو رونقیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
سارا سال یاری دوستی گروپ، روٹی گروپ، کرکٹ گروپ، یونیورسٹی کی غیر نصابی سرگرمیوں کا گروپ نپٹانے کے بعد جب امتحانوں کی باری آتی ہے تو یوں لگتا کہ پورے ہاسٹل میں رمضان سیزن چل رہا ہے یا سب جماعت میں چل رہے ہیں۔ کمرہ، میس اور مسجد اسی مثلث (ٹرائی اینگل) میں سارا امتحان گزر جاتاہے۔ ساری رات نوٹس اور کتابیں کھنگالنے، پڑھاکو لڑکوں سے مدد لینے، رٹّے لگانے، اپنے طور شارٹ کٹس بنانے کے بعد جب صبح کمروں سے برآمدگی ہوتی تو بقول احسان دانش:
یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سےگیسو
تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ
اس تمام تر فسانے اور ڈرامے میں جب طبیعت مقدر ہونے لگتی تو نصابی مواد سے وقتی طور پہ فرار حاصل کرنے کے لئے انہی غیر نصابی کتابوں میں پناہ ڈھونڈی جاتی۔ انہی دنوں میں راجہ گدھ وارد ہوا اور ایک طرح سے یہ "گدھ" بڑے موقع پہ آیا کہ یہ اندر کے مرے ہوئے یا قریب المرگ سب خیالات، احساسات، تصورات کو کھا جاتا اور امتحان جیسے درپیش کٹھن مسائل سے نبردآزما ہونے کو نئے سرے سے تقویت مل جاتی۔
"راجہ گدھ" کی اہمیت اور فعالیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ یہ طویل عرصے سے مقابلے کے امتحان کے نصاب میں شامل ہے۔ اس میں روزمرہ کی کہانی کی تمثیل سے مختلف موضوعات بیان ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک حلال حرام کا تصور بھی ہے۔ گدھ جاتی کی مثال بھی اسی طور بیان کی گئی ہے کہ جیسے گدھ فطرتاً مردار کھانے پہ معمور ہیں ایسے ہی گدھ صفت انساں بھی معاشرے میں ہر وقت دستیاب رہتے ہیں جو موقع ملتے ہی اپنی اصل نوچنے اور بھنبھوڑنے والی خصلت پہ آ جاتے ہیں۔
زندہ رہنے کے لئے آکسیجن اور پانی کے ساتھ ساتھ کھانا بھی ضروری ہے۔ کچھ لوگ کھانا بقدر ضرورت زندہ رہنے کے لئے کھاتے ہیں اور بعض زندہ ہی کھانا کھانے کے لئے رہتے ہیں۔ چند ایک ایسے رن٘د بھی دیکھے جو پیٹ کو دوزخ سے اور کھانے کو اس دوزخ کے ایندھن سے تشبیہہ دیتے پائے جاتے ہیں۔ دونوں صورتوں ہی میں کھانا دراصل لازم ہے اور کھانے کی ترتیب بھی عجیب ہے۔ حواسِ خمسہ ہمیں کھانے کے گرم سرد، اس کے ذائقے اور خوشبو سے متنبع کر دیتے ہیں فقط عقل و خرد سے کام لینا ہے کہ کھایا جانے والا حلال ہے یا حرام۔
فی زمانہ جلد سے جلد اور سب کچھ خود ہی سمیٹ لینے کے چکر میں حلال و حرام کی کسوٹی کہیں کھو گئی ہے۔ اب تو جہنم کی مافق حضرتِ انساں بھی ھل من مزید کی پکار پہ گامزن ہیں۔ بس آنا چاہئیے "جہاں سے بھی ہو جیسے بھی ہو جو بھی ہو۔ جب مانگیں ایسے شتر بے مہار بڑھیں گی تو بدلے میں ہر چیز بھی "پاٹے چھتر" کی طرح معقول حد سے بڑھی ہوئی ہی ملے گی، انتہائی تیز رفتار آندھیاں، بے موسم کی بارشیں، غیر معمولی حجم کی ژالہ باری، درجہ حرارت میں متغیر اتار چڑھاوَ اور اچانک بھڑکتی آگ اور متجاوز ہوتی ہوئی لاقانونیت۔
آج کے جدید دور میں ہم جانتےہیں کہ کھانا بناتے اور کھاتے وقت حفظانِ صحت اور صفائی جیسے بنیادی اصولوں پہ کاربند رہنا ضروری ہے۔ ورنہ معلوم نہیں کہ کھایا ہوا کھانا اندر جا کے کہاں کہاں کیا کیا غُل مچائے۔ گو صفائی نصف ایمان ہے لیکن کھانے کے معاملے میں تو صفائی پوری جان ہے۔ جیسے نظرِ بد اونٹ کو ہنڈیا میں ڈلوا سکتی ہے ایسے ہی ایک معمولی اور چھوٹی سی غلطی انسان کو زیرِ زمین چار فٹ نیچے کسی اور (کیڑے مکوڑوں) کا رزق (کھانا) بننے کا سبب بھی بنا سکتی ہے۔
دھوکہ، ملاوٹ، بے ایمانی، رشوت، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری یہ سب جرائم میں شامل ہیں۔ جیسے ہم بازار سے لائے پھل اور سزیوں کو دھو کے استعمال کرتے ہیں ایسے ہی اس اصول کو اپنی کمائی پہ بھی لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ کرکے ممکن ہے آمدنی میں کچھ اضافہ ہو جائے لیکن وہ اضافہ بھی کتنی دیر چلے گا، گر اس میں برکت اور فضل ہی شامل نہ ہوا۔ باہر خلقِ خُدا کو دھوکے نہ دیں، بلکہ گھر والوں کو اپنی کمائی دھو -کے دیں تو یقیناً پروردگار سب آفتوں، آزمائشوں، آلائشوں اور امتحانوں سے سرخرو کر دے گا۔

