عوام سے "ٹیکس وصولی" کا آسان ترین نسخہ

یہ عاجز کالم نگار نہیں بلکہ شہباز شریف صاحب اور ان کے معاونین اپریل 2022ء سے مسلسل یہ پیغام دہرارہے تھے کہ پٹرول کے پاکستانی صارف کو اس جنس کی اتنی قیمت ادا کرنا چاہیے جو عالمی منڈی میں رائج ہے۔ عالمی منڈی سے مہنگے داموں تیل اٹھاکر اسے صاف کرنے کے بعد پٹرول پمپوں تک پہنچانے کے باوجود اسے قومی خزانے سے جاری ہوئی امدادی رقوم کے ذریعے "سستا" بیچنا معاشی اصولوں کی احمقانہ خلاف ورزی ہے۔ ایسی حماقتوں کی وجہ سے پاکستان کی تقریباََ ہر حکومت کو خواہ وہ فوجی ہو یا منتخب، کشکول اٹھاکر عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کے دروازے پر دستک دینا پڑتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی زندگیاں معاشیات کے بنیادی اصولوں کے مطابق گزاریں۔
مذکورہ پیغام پھیلاتے ہوئے یہ وعدہ بھی مسلسل دہرایا گیا کہ اگر عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت گرے گی تو اس کا فائدہ بھی فوری بنیادوں پر عوام کو منتقل کیا جائے گا۔ غالباََ اسی خاطر ہمارے ہاں ہر پندرھویں دن پٹرول اور ڈیزل وغیرہ کے نرخ طے کئے جاتے ہیں۔ معیشت کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا صارف امریکہ ہے۔ جنوری میں اس کی صدارت سنبھالنے کے بعد مگر ٹرمپ اپنے ملک کو دیگر ممالک میں تیار ہوئی اشیاء کا خریدار بنائے رکھنے کو تیار نہیں۔ اس کے وائٹ ہائوس لوٹنے کی بنیادی وجہ امریکہ کو "دوبارہ عظیم" بنانے کا وعدہ ہے۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ امریکہ میں دیگر ملکوں سے درآمد ہوئی اشیاء کی وجہ سے جو فیکٹریاں بند ہوئی ہیں انہیں دوبارہ چالو کیا جائے تاکہ لوگوں کو روزگار نصیب ہو۔ معاشی جمود کا خاتمہ ہو۔
اپنے وعدہ پر عمل پیرائی کی خاطر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی دیگر ممالک سے آئی مصنوعات پر حوصلہ شکن ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کردیا۔ چین اس ضمن میں اس کا خصوصی ہدف ہے۔ اس کی چند مصنوعات پر ٹیکس کی شرح 245فی صد تک بڑھادی گئی ہے۔ معیشت کے دھندے کو سمجھنے والے مصر ہیں کہ ٹرمپ کی موجودہ پالیسیاں برقرار نہیں رہ پائیں گی۔ فی الوقت مگر ان کی وجہ سے تمام عالم کساد بازاری کی زد میں ہے۔
محض امریکی منڈی کو ذہن میں رکھ کر مصنوعات تیار کرنے والے سرپکڑے بیٹھے ہیں۔ ان کے تقریباََ بند ہوئے کارخانوں کو تیل کی ضرورت نہیں۔ اسی باعث عالمی منڈی میں تیل کی قیمت مسلسل گررہی ہے۔ امید یہ بھی باندھی جارہی ہے کہ اگر ٹرمپ اپنے وعدے کے مطابق امریکہ کو دنیا بھر میں تیل وگیس پیدا کرنے اور اسے برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بنانے کے بعد روس-یوکرین جنگ بند کروانے اور ایران کے ساتھ بھی صلح کا کوئی معاہدہ کروانے میں کامیاب ہوگیا تو تیل کی قیمتیں تاریخ کی کم ترین سطح تک پہنچ جائیں گی۔ بیرون ملک پیدا ہوئے تیل پر کامل انحصار کے عادی ہوئے پاکستان جیسے ملکوں کے لئے یہ خیر کی خبر ہونا چاہیے۔
"خیر" کی تھوڑی جھلک ہمیں منگل کی شام مل سکتی تھی۔ اس روز توقع تھی کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کے رحجان کو ذہن میں رکھتے ہوئے وزیر اعظم صاحب فی لٹر پٹرول میں کم از کم دس روپے کمی کا اعلان کردیں گے۔ متوقع اعلان کرنے کے بجائے وزیر اعظم صاحب کا کابینہ سے ہوا خطاب ٹی وی چینلوں کے ذریعے عوام کے روبرو لایا گیا۔ اس کی بدولت اطلاع ہمیں یہ دی گئی کہ عالمی منڈی کے رحجان کا پاکستان میں اطلاق نہیں ہوگا۔
وہاں تیل کے نرخ کم ہونے کی وجہ سے جو اضافی رقم میسر ہوئی ہے اسے کراچی کو بذریعہ خضدار /قلات، چمن پر واقعہ افغان سرحد سے ملادیا جائے گا۔ اس سڑک کی تعمیر کے لئے 300ارب روپے درکار ہیں۔ یہ 300ارب روپے پٹرول پر تقریباََ 8روپے کے قریب اضافی ٹیکس کے ذریعے حاصل کئے جائیں گے۔ اس سے قبل ہم ایک لیٹر پٹرول خریدتے ہوئے حکومت کو 70روپے ٹیکس کی صورت ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیلز ٹیکس اور پٹرول بیچنے والوں کا کمیشن ادا کرتے ہوئے مجموعی طورپر ہمیں ایک لٹر خریدتے ہوئے سوروپے کے قریب پٹرول کی اصل قیمت سے اضافی رقم دینا ہوگی۔
پٹرول کی قیمت کم نہ ہونے کی وجہ سے میں طیش میں آگیا۔ جذبات سے مغلوب ہوا ایک کالم لکھا جو جمعرات کی صبح ہمارے اخبار میں چھپا ہے۔ وہ کالم لکھ کر دفتر بھجوادیا تو مزید تحقیق کے نتیجے میں دریافت یہ ہوا کہ مسئلہ صرف کراچی کو چمن سے ملانے والی شاہراہ کی تعمیر نہیں۔ مقصد فقط اتنا ہوتا تو بدھ کی صبح لکھے کالم میں اپنی بھڑاس نکالنے کے بعد اسے بھول جاتا۔ مزید تحقیق نے مگر جذبات کو مزید کھولادیا ہے۔ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو بدھ کی شام پٹرول کی قیمت میں کمی نہ کرنے کے لئے اس پر اضافی پٹرولیم لیوی لگاتے ہوئے حکومت نے ہمارے ساتھ پنجابی زبان والا "ہتھ" کردیا ہے۔
پٹرول کی قیمتوں کا تعین کرنے کے لئے گزشتہ صدی کے 1961ء میں بھی ایک آرڈیننس جاری ہوا تھا۔ وہ قانون فیلڈ مارشل ایوب خان نے وطن عزیز میں پہلا مارشل لاء لگانے کے بعد متعارف کروایا تھا۔ اس قانون میں "پانچویں شق" بھی تھی۔ اس شق کے ذریعے طے ہوا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کی کھلے بازار میں فروخت کے لئے جو ڈیوٹی یا ٹیکس عائد ہوگا اس کی ایک "حد" ہوگی۔ مثال کے طورپر بدھ کی شام تک فی لیٹر پٹرول خریدتے ہوئے ہم جو اضافی 70روپے ادا کررہے تھے وہ "پٹرولیم ڈیوٹی" کے نام پر لئے جارہے تھے۔ اس کے حصول کا قانونی جواز پانچویں شق نے فراہم کیا تھا۔ اب وہ شق اڑادی گئی ہے۔
مذکورہ شق اڑانے کا واحد مقصد یہ ہے کہ حکومت کو جب بھی کسی مقصد کے لئے اضافی رقم کی ضرورت پڑی تو وہ ان طبقات پر جنہیں زیادہ سے زیادہ ٹیکس ادا کرنا چاہیے توجہ دینے کے بجائے قلم سے فقط ایک لائن لکھے گی اور پٹرولیم ڈیوٹی میں اضافہ کردیا جائے گا۔ فرض کیا ٹرمپ روس -یوکرین جنگ رکوانے میں کامیاب ہوگیا۔ ایران کے ساتھ بھی اس کا کوئی معاہدہ ہوگیا تو عالمی منڈی کساد بازاری کے موجودہ ماحول میں تیل سے مالامال ہوجائے گی۔ اس کی وجہ سے نوبت یہاں تک بھی آسکتی ہے کہ عالمی منڈی سے پاکستان میں آیا تیل مثال کے طور پر ہمارے پٹرول پمپوں پر 60 روپے فی لٹر بھی میسر ہوسکتا ہے۔
حکومت مگر اس پٹرول کوبھی پٹرولیم ڈیوٹی کو موجودہ حد سے بڑھاکر موجودہ قیمتوں پر ہی برقرار رکھ سکتی ہے اور اس کا فیصلہ اس اعتبار سے "قانونی" ٹھہرئے گا کیونکہ اسے 1961ء میں تیار ہوئے ایک قانون کے تحت لیا گیا ہے جس کی پانچویں شق سے بدھ کی رات نجات پالی گئی ہے۔ عوام سے "ٹیکس وصولی" کا اس سے آسان ترین نسخہ دریافت ہی نہیں ہوسکتا تھا۔ ہماری حکومت کے نورتنوں نے مگر اسے دریافت کرلیا ہے۔