Tuesday, 22 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Hawai Rozi Aur Seat 1C

Hawai Rozi Aur Seat 1C

ہوائی روزی اور سیٹ 1c

بیشتر لوگ آپ بیتی لکھتے ہیں۔ بہت کم لکھنے والوں نے "کام بیتی" لکھی ہے۔ یعنی اپنے پیشے کو اپنی کتاب کا موضوع بنایا ہے۔ ایسے لوگ اور بھی کم، شاید گنتی کے چند ہیں جنھوں نے کتاب کا عنوان ایسا چنا جس سے پیشہ ظاہر ہو اور ادبی مٹھاس بھی شامل رہے۔ بہت سوچنے پر مجھے دو نام یاد آئے۔ مشتاق احمد یوسفی کی زرگزشت اور کرنل محمد خان کی بجنگ آمد۔ اب اس میں خاور جمال کی ہواَئی روزی کو بھی شامل کرلیجیے۔

اس بات کا احتمال بہرحال تھا کہ مبشر زیدی جیسے گھامڑ کتاب کے عنوان سے مصنف کو اپنے جیسا مزدور نہ سمجھ لیں۔ اس لیے مصنف نے سرورق کے لیے فضائی میزبان کا یونیفارم پہن کر تصویر بنوائی۔ لیکن مسلمان آخر مسلمان ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ جہاز پر ایسے چڑھ کر بیٹھے ہیں جیسے بدو اونٹ پر بیٹھتے ہیں۔ ایک ٹانگ ادھر اور ایک ادھر۔ اس تصویر میں سب کچھ ہے، سوائے جہاز کے کوہان کے۔

خاور صاحب کا جہاز امریکا نہیں آتا۔ کینیڈا کے ایک پھیرے میں انھوں نے اپنے ایک دوست کو دو کتابیں دیں۔ ایک دستخط کرکے ان کے لیے، ایک میرے لیے۔ میں شرط لگاکر کہہ سکتا ہوں کہ ان کے دوست مخلص بھی بہت ہیں لیکن کتاب کھول کر بھی نہیں دیکھی۔ یہ کیسے پتا چلا؟ ایسے کہ انھوں نے ڈالر خرچ کرکے کتاب مجھے امریکا بھجوادی لیکن اس پر نام ان کا لکھا ہے۔

میں گزشتہ پورا سال تعلیمی اور غیر تعلیمی سرگرمیوں کی وجہ سے دوستوں کو کتابوں کی رسید نہیں دے سکا۔ خاور صاحب شاید سمجھے کہ میں وہ کتابیں نہیں پڑھتا جن پر میرا نام نہ ہو۔ انھوں نے بہت زحمت اٹھائی اور اپنی کتاب ڈھنڈواکر مجھے بھجوائی۔ اس کے بعد میرے پاس کتاب نہ پڑھنے کا کوئی بہانہ نہیں رہا۔

اسکول کی اسپرنگ بریک شروع ہوئی تو میں نے کتاب کھول کر دیکھی۔ گھر میں بہار کی خوشبو پھیل گئی۔ شگفتہ انداز، دلچسپ واقعات، خوشگوار باتیں۔ داڑھی والے حسنین جمال کے بھائی سے اسی قسم کی تحریر متوقع تھی۔ خاور اپنی اگلی کتاب کا عنوان اگر "اوپر کی آمدنی" نہ رکھنا چاہیں تو "دوسرا داڑھی والا" رکھ سکتے ہیں۔

طویل قصوں سے لوگ اکتا جاتے ہیں۔ اس کتاب میں ایسا کوئی معاملہ نہیں۔ ہر کہانی دو تین صفحات کی ہے۔ کسی سفر کا احوال، کسی سیلی برٹی مسافر سے ملاقات، کوئی مختصر تجربہ۔ یہ تجربات انوکھے ہیں۔ فضائی سفر ہم سب کرتے ہیں لیکن وہ مسافروں کے سفر ہوتے ہیں۔ میزبانوں کے سفر اور طرح کے ہوتے ہیں۔

بھائی خاور نے صرف کتاب کا نام ہی کمال نہیں رکھا، مضامین کے عنوان بھی مزے کے ہیں۔ مشکل لہجے اور کاغذی زیر جامے، جہاز کے باتھ روم کی ڈھولکی، فوکرکے ہچکولے اور شلپا شیٹھی [اس میں شلپا شیٹھی کہیں نہیں ہے] فضائی عملے کی گھنٹا زندگی، حاملہ مسافر اور حلالی ملازم، ہوائی جہاز کی ناک اونچی کیوں رہتی ہے اور نوجوانی کے عیب اور ظالم مرغا۔

کتاب کا آخری مضمون سب سے اہم ہے بلکہ نوجوانوں کو سب سے پہلے وہی پڑھنا چاہیے: کیا آپ فضائی میزبان بننا چاہتے ہیں؟ یہ کام ہرگز آسان نہیں اور اوقات کار بھی ایب نارمل قسم کے ہوتے ہیں لیکن اچھا معاوضہ اور ملک ملک گھومنے کی کشش ایسی ہے کہ میں اس عمر میں بھی اس بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ میرے جیسے موضوعات سے محروم ناکام رائٹرز کو سوچنا چاہیے کہ چند سال ایسی ملازمت کے بعد آپ ہوائی روزی جیسی عمدہ کتاب لکھ سکتے ہیں۔

میں ان مشاہیر کے نام نہیں لکھ رہا جن سے خاور میاں کا ٹاکرا ہوا لیکن ان کی یہ حسرت قابل ذکر ہے کہ اسد امانت علی نے ان کے جہاز میں سفر کیا اور وہ نہیں مل سکے۔ مجھے بھی کئی بڑے ناموں کا خیال آیا جو جیو کے دفتر آئے یا کہیں اور ملے لیکن میں نے دھیان نہیں دیا۔ اب خیال آتا ہے کہ موقع گنوادیا۔

اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے اپنے سفر بھی یاد آئے اور دوسروں کے بھی۔ لیڈیا ڈیوس کی ایک کہانی میں نے ترجمہ کی تھی اور دنیازاد میں چھپی تھی، جس میں ایک فضائی سفر کا احوال تھا۔ ڈاکٹر ثروت ہماری بہن بھی کسی زمانے میں فضائی میزبان تھیں۔ جیو کی ساتھی نادیہ فیصل کا چہرہ آنکھوں میں پھرا، جو کچھ عرصہ برٹش ائیرویز کی فضائی میزبان رہیں۔ پھر جوانی میں انتقال کرگئیں۔

کیا آپ ظفر مسعود کو جانتے ہیں؟ وہ امروہے کے ہیں اور ہمارے رشتے دار۔ اداکار منور سعید کے فرزند اور پنجاب بینک کے صدر۔ وہ پی آئی اے کے اس بدقسمت طیارے میں سوار تھے جو کراچی میں گرگیا تھا اور جیو کے سابق کنٹرولر انصار نقوی سمیت بیشتر مسافر جاں بحق ہوگئے تھے۔ شاید صرف دو افراد بچے، جن میں ایک ظفر مسعود تھے۔

آپ کہیں گے، خاور جمال کی کتاب کا ذکر کرتے کرتے میں بہک کر کیا باتیں کرنے لگا۔ دراصل بھائی ظفر مسعود نے بھی حال میں کتاب تحریر کی ہے جو چند دن پہلے ہی شائع ہوئی ہے۔ جب آپ خاور کی کتاب کے لیے بک اسٹور جائیں تو ان کی کتاب بھی ضرور لیں۔ اس میں یہ سبق ملے گا کہ حادثات پیش آنے کے باوجود ثابت قدم رہنے والے کیسے زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں۔

Check Also

Rich Dad, Poor Dad

By Javed Chaudhry