Friday, 25 April 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Tazkira Qamar Uz Zaman Kaira Ki Sajai Shadi Ki Taqreeb Ka

Tazkira Qamar Uz Zaman Kaira Ki Sajai Shadi Ki Taqreeb Ka

تذکرہ قمرالزمان کائرہ کی سجائی شادی کی تقریب کا

اتوار کی سہ پہر پیپلز پارٹی کے متحرک رہ نما اور سابق وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ صاحب نے اپنے بچوں کی شادی کے حوالے سے اپنے آبائی شہر لالہ موسیٰ میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام کررکھا تھا۔ دوست نواز اور پرخلوص محبت بانٹنے کے عادی کائرہ صاحب کے بے شمار چاہنے والے اس تقریب میں موجود تھے۔ میں بھی دوستوں کی مہربانی سے بہت سہل انداز میں وہاں پہنچ گیا۔

اسلام آباد سے لاہور کی جانب سفر کرتے ہوئے ہمیشہ تاریخی جی ٹی روڈ کو موٹروے کے مقابلے میں ترجیح دینے کا خواہش مند رہا ہوں۔ دورِ حاضر میں سرعت رفتار سفر کی اپنی اہمیت ہے۔ کاروباری ضرورتوں یا ہنگامی حالات کی مجبوری میں سرعت رفتار سفر یقیناََ قابل ترجیح ہے۔ تعطیل کے روز مگر ایک دوست کے ہاں منعقدہ خوشی کی تقریب میں شرکت کے لئے جی ٹی روڈ کا انتخاب راستے میں آئے شہروں کی تاریخ وثقافت یاددلاتے ہوئے ایک خاص نوعیت کا فخر فراہم کرتا رہا۔

جی ٹی روڈ کو حالیہ برسوں میں کشادہ بھی کردیا گیا ہے۔ جو کشادگی فراہم ہوئی تھی وہ مگر شہروں میں داخل ہوتے ہی معدوم ہوجاتی۔ ناجائز تجاوزات اور خوانچہ فروشوں کے بے ہنگم ہجوم سڑک کی دولینز میں سے صرف ایک کو سفر کے قابل رکھتے۔ تقریباََ دس برس کے بعد جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہوئے اتوار کے دن اگرچہ احساس ہوا کہ پنجاب کی صوبائی حکومت کی انسداد تجاوزات مہم کامیاب رہی ہے۔ دو رویہ ٹریفک اب تمام لینز میں اس کی بدولت روایتی رہتی ہے اور سفر کرتے ہوئے آپ کو دائیں اور بائیں کے مناظر دیکھنے کو ملتے اور بھلے لگتے ہیں۔ پوٹھوہار کی سحرانگیزی سے دل شاد ہوا۔

کوفت مگر اس وقت ہوئی جب اسلام آباد سے لالہ موسیٰ جاتے ہوئے تین مختلف مقامات پر ٹول ٹیکس ادا کرنے کے لئے رکنا پڑا۔ تینوں جگہ آپ کو سترروپے ادا کرکے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ میں سمجھ نہیں پایا کہ موٹروے کی طرح جی ٹی روڈ کے لئے بھی ایک ایسا ٹیگ متعارف کیوں نہیں کروایا گیا جس کی فیس کی یکمشت ادائیگی کے بعد آپ ٹول ادا کرنے کے لئے رکے بغیر اپنا سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔ ٹول ادا کرنے کی کوفت کے علاوہ اسلام آبادے سے نکلتے ہی ایک دو پولیس ناکے مجرموں کا پتہ لگانے اور انہیں روکنے کے بجائے ٹریفک کی روانی میں بلاجواز رکاوٹیں کھڑی کرتے دکھائی دئیے۔

جو مہربان دوست مجھے لے جارہے تھے ان کی گاڑی بھی بلاجواز روکی گئی۔ مجھے یقین ہے ایسی ہی کاوشیں کئی دوسری گاڑیوں کے ساتھ بھی ہوئی ہوں گی۔ مقصد ان ناکوں کا مجھے تو مسافروں کو خواہ مخواہ کی کوفت میں مبتلا کرنا محسوس ہوا۔ ایک باخبر دوست نے یہ اطلاع دے کر بھی پریشان کردیا کہ اسلام آباد سے جی ٹی روڈ کی جانب سفر کرتے ہوئے پولیس کے جو ناکے لگائے گئے ہیں ان پر تعیناتی کے لئے "تگڑی سفارش" درکار ہوتی ہے۔ نظر بظاہر نیک نیتی کے ساتھ جرائم کے مقابلے کے لئے لگائے ناکوں پر تعیناتی کیلئے تگڑی سفارش کسی اور "مقصد" کا عندیہ دیتی ہے۔

شادی کی تقریب ایک وسیع وعریض قطعہ اراضی میں تھی۔ مہمان بھی ہزاروں کی تعداد میں ملک کے تقریباََ ہر شہر سے جوق درجوق تشریف لائے تھے۔ کائرہ خاندان کے تمام افراد نے مگر ہر مہمان کا بھرپور گرم جوشی سے سواگت کیا۔ ہر مہمان کو وی آئی پی محسوس کروایا۔ اس تقریب کی بدولت ایک طویل عرصے کے بعد میری پیپلزپارٹی کے کئی اہم اور مشہور رہ نماؤں سے ملاقات ہوئی۔ چند سینئر ترین لوگوں سے تنہائی میں گپ شپ لگانے کے بعد احساس ہوا کہ وہ خود کو سیاسی اعتبار سے غیر متعلق محسوس کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ قیادت تک رسائی کے باوجود انہیں گلہ ہے کہ ان کی بات سننے کے بجائے "حکم" ملتا ہے۔ "حکم" کی وجوہات منطقی انداز میں سمجھانے کی کوشش نہیں ہوتی۔ فقط "جی حضوری" کی توقع باندھی جاتی ہے۔

حیران کن حقیقت مگر یہ بھی تھی کہ مجھے اس تقریب میں 30سال سے کم عمر کئی ایسے نوجوان ملے جنہوں نے نہایت فخر سے اپنے بزرگوں کا ذکر کیا جو پیپلز پارٹی کے ساتھ طویل وابستگی کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ نوجوان آج بھی اپنے بزرگوں کی جماعت کے کام آنا چاہتے ہیں۔ ان کی رہ نمائی کے لئے مگر کوئی حکمت عملی تیار نہیں ہوئی۔ گوجر خان سے لالہ موسیٰ تک جو شہر اور قصبات ہیں ان کے بے تحاشہ افراد 1970ء کی دہائی سے بیرون ملک جانا شروع ہوگئے تھے۔ ان کی ایک معقول تعداد اب برطانیہ اور یورپ کے کئی ملکوں میں کاروباری اعتبار سے بہت کامیاب گردانی جاتی ہے۔ اتفاق سے ایسے لوگوں میں سے کچھ افراد کائرہ خاندان کی سجائی تقریب میں بھی موجود تھے۔ مذکورہ تقریب میں شرکت کے علاوہ وہ پاکستان اس کنونشن میں شرکت کے لئے بھی تشریف لائے تھے جو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے پیر سے شروع ہورہا ہے۔

ان میں سے جن افراد کے ساتھ میری گفتگو ہوئی وہ نہایت خلوص کے ساتھ اپنے مادرِ وطن کے امیج کو بہتر بنانے کے لئے ہی نہیں بلکہ یہاں کے نوجوانوں کے لئے بھی منظم انداز میں کچھ ہوتا دیکھنے کے خواہش مند ہیں اور اس تناظر میں خطیر رقوم بھی عطیات کی صورت فراہم کرنے کو آمادہ۔ ان کا خلوص بروئے کار لانے کے لئے تاہم کوئی ٹھوس حکمت عملی مجھے سننے کو نہیں ملی۔ کاش ان پاکستانیوں کو بلانے سے قبل کسی تھنک ٹینک نے بیرون ملک مقیم خوش حال اور کاروباری اعتبار سے کامیاب گردانے افراد کی صلاحیتوں اور سرمائے کو مختلف شعبوں میں استعمال کرنے کے ذرائع ڈھونڈلئے ہوتے۔ امید ہی کرسکتا ہوں کہ جو کنونشن ہورہا ہے اس کے دوران ایسے امکانات کو ٹھوس انداز میں بروئے کار لانے کی راہیں دریافت ہوسکیں گی۔

شادی کی تقریب میں سب سے زیادہ خوشی مجھے نوجوانوں کی اس کھیپ سے مل کر ہوئی جودورِ حاضر میں بھی علم اور معلومات کے حصول کے لئے فقط سوشل میڈیا پر ہی انحصار نہیں کرتی۔ میرے لئے خوش گوار حیرت کا باعث یہ دریافت تھی کہ اخبار میں چھپے کالم یہ نوجوان نہایت سنجیدگی سے پڑھتے ہیں۔ میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے چند نوجوانوں نے ان موضوعات کا ذکر کیا جو اس کالم میں زیر بحث آئے تھے۔ اس کے علاوہ چند دیگر کالم نگاروں کے خیالات سے اتفاق واختلاف کا بھی سرسری انداز میں ذکر ہوا۔

یہ تاثر گویا غلط ہے کہ ہماری نوجوان نسل اب فیس بک یاانسٹا گرام کی نذر ہوچکی ہے۔ وہ جسے ہم لانگ فارم جرنلزم کہتے ہیں اسے نظرانداز کرتے ہوئے اب محض ٹک ٹاک سے اپنا دل پشوری کرتی ہے۔ نوجوانوں کی اس نسل کے ساتھ مگر میری نسل کے رابطے اور مکالمے کے پلیٹ فارم میسر نہیں۔ دورِ حاضر کو یقیناََ سرسید جیسی شخصیات کی ضرورت ہے جو "قدیم" کو یکسر رد کئے بغیر نوجوان نسل کو "جدید" کے ساتھ کامیابی کے ساتھ رہنا سکھاسکے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Dome Of The Rock

By Mubashir Ali Zaidi