Insan Ki Fitrat Aur Waqt Ki Sui
انسان کی فطرت اور وقت کی سوئی

زندگی ایک عجیب سی پہیلی ہے اور انسان اُس کا سب سے الجھا ہوا کردار۔ وقت کی سوئی مسلسل چلتی رہتی ہے، نہ رُکتی ہے، نہ تھکتی ہے اور نہ ہی کسی کے درد پر مڑ کر دیکھتی ہے۔ انسان چاہے جتنا بھی تھک جائے، جتنا بھی رو لے، جتنا بھی ٹوٹ جائے، وقت کا سفر ایک جیسا ہی رہتا ہے، بے حس، بے پروا اور مسلسل۔ لیکن انسان کی فطرت، وہ بدلتی ہے۔ کبھی کسی لمحے میں خوشی ڈھونڈتا ہے، کبھی اُسی لمحے میں آنکھوں سے خاموشی بہا دیتا ہے۔ یہی وہ المیہ ہے جس نے زندگی کو ایک اداس نغمہ بنا دیا ہے، جس کی دھن تو مسلسل ہے، مگر لفظ ہر بار نئے دکھ لکھتے ہیں۔
انسان کی فطرت ہے امید رکھنا، خواب دیکھنا، تعلق نبھانا اور احساسات کو دل کے نہاں خانوں میں سنبھال کر رکھنا۔ مگر زندگی ہمیشہ ویسی نہیں ہوتی جیسی ہم چاہتے ہیں۔ کبھی سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دل خالی لگتا ہے اور کبھی کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی اک امید سانسوں میں رہتی ہے۔ لیکن جب وقت ایک ایک کرکے سب چھین لیتا ہے، خواب، لوگ، لمحے اور مسکراہٹیں، تو انسان صرف اپنے خالی ہاتھ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ وہی ہاتھ جو کبھی دعاؤں کے لیے اُٹھتے تھے، اب بے مقصد سے گر چکے ہوتے ہیں۔
کبھی ہم سوچتے ہیں کہ کچھ لوگ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے، کچھ رشتے کبھی نہیں ٹوٹیں گے، کچھ لمحے ہمیشہ ہمارے حصے میں آئیں گے۔ مگر وقت ثابت کرتا ہے کہ کچھ بھی مستقل نہیں۔ وہ رشتے جن پر ہم فخر کرتے ہیں، ایک دن اجنبیت کی حد پار کر جاتے ہیں۔ وہ لمحے جنہیں ہم نے دل میں قید کیا ہوتا ہے، ایک دن ذہن سے مٹنے لگتے ہیں اور وہ لوگ جن کے بغیر سانس لینا بھی محال لگتا تھا، وہی وقت کے کسی موڑ پر اتنے دور ہو جاتے ہیں کہ آواز دینا بھی بے فائدہ ہو جاتا ہے۔
اداسی ایک مسلسل ہمسفر ہے۔ وہ ہر اُس لمحے ساتھ ہوتی ہے جب ہم خاموشی سے مسکراتے ہیں، جب ہم سب کے بیچ ہوتے ہوئے بھی تنہا محسوس کرتے ہیں، جب راتوں کو جاگ کر دل کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب دل میں کوئی چیخ اٹھتی ہے مگر لبوں پر خاموشی ہوتی ہے اور وقت کی سوئی؟ وہ ہر بار یاد دلاتی ہے کہ ایک اور لمحہ گزر گیا، ایک اور امید دھندلا گئی، ایک اور دن ختم ہوگیا، بے حاصل، بے رنگ اور بے مقصد۔
انسان کی فطرت ہے ماضی میں جینا۔ ہم بار بار اُن لمحوں کو یاد کرتے ہیں جو ہمیں خوشی دیتے تھے، یا وہ لوگ جو اب ہمارے ساتھ نہیں۔ ہم دل ہی دل میں اُن راستوں پر دوبارہ چلتے ہیں جہاں کسی کا ساتھ ملا تھا، کسی کی مسکراہٹ دل کو سکون دیتی تھی، یا کسی کی خاموشی بھی آواز جیسی لگتی تھی۔ مگر وقت کی سوئی کبھی پیچھے نہیں جاتی۔ وہ ہمیں جتاتی ہے کہ جو گزر گیا وہ واپس نہیں آئے گا، چاہے ہم کتنی ہی بار دل سے پکاریں۔
اور یہی احساس انسان کو توڑ دیتا ہے۔ ایک اندرونی تنہائی جنم لیتی ہے، جہاں نہ کوئی آتا ہے، نہ کوئی سنتا ہے۔ صرف دل کی دھڑکن ہوتی ہے اور آنکھوں کی نمی۔ انسان ہنستا ہے، بات کرتا ہے، سب کے سامنے جیتا ہے — مگر اندر سے وہ ہر لمحہ مر رہا ہوتا ہے۔ اُسے خود سمجھ نہیں آتی کہ اُسے کیا کھا گیا ہے۔ بس ایک بےنام اداسی اُس کا سایہ بن چکی ہوتی ہے، جو ہر جگہ ساتھ چلتی ہے۔
وقت کا کمال یہ بھی ہے کہ وہ زخم تو دے دیتا ہے، مگر شفا کا کوئی وعدہ نہیں کرتا۔ ہم انتظار کرتے ہیں کہ شاید کوئی لمحہ، کوئی بات، کوئی شخص، ہمیں وہ سکون دے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ مگر جب بار بار وقت صرف تکلیف دیتا ہے، تو انسان اُمید کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ تب وہ اندر سے خالی ہو جاتا ہے۔ اُس کی مسکراہٹوں کے پیچھے درد چھپنے لگتا ہے اور وہ ہنسی جو پہلے دل سے نکلتی تھی، اب صرف رسم بن جاتی ہے۔
بعض اوقات وقت ہمیں اُن لوگوں سے دور کر دیتا ہے جنہیں ہم نے اپنا سب کچھ سمجھا ہوتا ہے اور پھر ہم سوچتے ہیں، کیا غلطی ہم سے ہوئی؟ کیا ہم نے کم محبت کی؟ کم نبھایا؟ یا وقت ہی ظالم تھا؟ مگر وقت کبھی جواب نہیں دیتا، وہ صرف گزر جاتا ہے اور انسان؟ وہ اُس خلا کے ساتھ جینا سیکھ لیتا ہے جو کبھی کسی کی موجودگی سے بھرا ہوا تھا۔
کبھی کبھی ہم کسی کے چلے جانے کے بعد جینے کا مطلب ہی بھول جاتے ہیں۔ ہر منظر دھندلا ہو جاتا ہے، ہر آواز بے معنی لگتی ہے۔ ہمیں لگتا ہے جیسے وقت تھم گیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ صرف ہماری دنیا رک گئی ہوتی ہے، وقت تو ویسے ہی آگے بڑھتا رہتا ہے، کسی کو خاطر میں لائے بغیر۔
اداسی کا سب سے گہرا رنگ تب اُبھرتا ہے جب ہم جانتے ہیں کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے، مگر پھر بھی دل ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ ہم اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر بار بار اُن یادوں کو دہراتے ہیں جن سے ہمیں صرف تکلیف ملتی ہے اور وقت؟ وہ ایک تماشائی کی طرح دیکھتا ہے اور آگے بڑھتا رہتا ہے۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ وقت کبھی رُک جائے، وہ لمحے قید ہو جائیں جن میں خوشی تھی، سکون تھا، محبت تھی۔ مگر وقت کی سوئی صرف آگے بڑھنا جانتی ہے۔ وہ نہ کسی کی خوشی کے لیے تھمتی ہے، نہ کسی کے دکھ کے لیے۔ وہ چلتی ہے اور ساتھ ہی انسان کو بدلتی ہے۔ وہی انسان جو کل تک جواں جذبوں کا قائل تھا، آج ایک اداس خیال میں گم ہو جاتا ہے۔
آخر میں بس اتنا کہنا کافی ہے کہ انسان کی فطرت اور وقت کی سوئی کبھی ہم آہنگ نہیں ہو سکتیں۔ انسان چاہتا ہے تھوڑا تھم جائے، وقت چاہتا ہے کہ سب کچھ گزر جائے۔ انسان چاہتا ہے کچھ یادیں باقی رہیں، وقت چاہتا ہے کہ سب بھول جائیں اور شاید یہی کشمکش، یہی ناہمواری، زندگی کا اصل دکھ ہے۔ ایک ایسا دکھ جو ختم نہیں ہوتا، صرف خاموش ہو جاتا ہے، اندر کہیں بہت گہرائی میں۔