Beeswin Aur Ikeeswen Sadi Ki Kuch Tasveerain
بیسویں اور اکیسویں صدی کی کچھ تصویریں

بیسویں اور اکیسویں صدی کی کچھ تصویروں نے دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا تھا۔ ویتنام کی جنگ تب تک عالمی مظاہروں کا حصہ نہ بن پائی جب تک ان ویتنامی بچوں کی تصویر سامنے نہ آئی جو امریکی نیپام بموں کی کارپٹ بمباری کے سبب اپنے جسموں کو آگ کی لپٹوں سے چھڑانے کو ننگے بھاگ رہے تھے۔ جونہی یہ تصویر سامنے آئی دنیا کو ویتنام میں جاری ہولناکی کا احساس ہوا اور پھر وہ احساس احتجاج میں ڈھلتا چلا گیا۔ اس ایک تصویر نے ویتنام جنگ کے خلاف عالمی مظاہروں کی بنیاد رکھ دی۔
سپینش خانہ جنگی کی عکاسی کرتی پکاسو کی پینٹنگ "گورنیکا" دیکھنے والے انگلیاں دانتوں میں داب لیتے ہیں۔ فاشسٹ ڈکٹیٹر جنرل فرانکو کے فائرنگ سکواڈ کے سامنے سپینش شاعر گارسیا لورکا کی سینہ تانے کھڑی تصویر دیکھ کر ہی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ دراصل سپین میں کیا گزری تھی۔
قحط کیا ہوتا ہے اس کا احوال دنیا کو سوڈان میں پڑے قحط کی اس تصویر نے دکھا دیا جس میں ایک فاقہ زدہ بچے کا ڈھانچہ آخری سانسیں لے رہا ہے اور قریب بیٹھا ایک گدھ یہ سانسیں گن رہا ہے۔
چائنہ میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کیسی مزاحمت ہوئی اس کا حال اس تصویر نے بتایا جس میں ایک نہتا شہری ٹینکوں کی قطار کے سامنے کھڑا ہے۔ (ٹینک اس کو کچلتے ہوئے نکل گئے تھے)۔
نازیوں کے کنسٹریشن کیمپ میں کیا ہوتا رہا اس کی داستان ان چند تصویروں میں سمٹ کر رہ گئی جن میں مرد عورتوں کے زندہ لاش نما ننگے ڈھانچے گیس چیمبر میں دھکیلے جانے سے قبل سپاٹ چہروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
نارتھ کوریا اور ساؤتھ کوریا کا حقیقی مسئلہ کیا ہے یہ ارب ہا انسانوں کو اس تصویر نے بتایا جس میں ساؤتھ کوریا میں کھڑا ایک بوڑھا بھائی بس میں بیٹھے اپنے بوڑھے بھائی کو نمزدہ آنکھوں سے ہاتھ ہلاتے الوداع کر رہا ہے۔ بس کی منزل نارتھ کوریا ہے۔
بوسنیا کی اس تصویر کو کون بھول پایا ہے جس میں خاردار تاروں کے درمیاں سے ایک ماں اپنے ننھے بچے کو بوسہ دے رہی ہے جو یوگوسلاویا کی زمین پر رہ کر بچھڑ گیا ہے۔
ترکی کے ساحل پر اوندھی پڑی چار سالہ شامی بچے کی لاش نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھا دیا کہ شام میں کیا ہو رہا ہے۔ نتیجتہً یورپی ممالک کو شامی پناہ گزینوں کے واسطے اپنے دروازے کھولنے پڑے۔
کشمیر کی ساری تصویری آرکائیو اڑا بھی دی جائے تو بھی ایک تصویر دنیا کی یادداشت میں بیٹھ چکی ہے جس میں سڑک پر ایک تین سالہ بچہ اپنے باپ کی خون آلود لاش کے سینے پر حیران بیٹھا ہے۔
ان تصاویروں کی مانند میرے ذہن میں بلوچستان کی جو خیالی تصویر بنتی ہے وہ ان تصاویر سے مختلف نہیں ہے۔ بلوچستان کا المیہ ہی یہ ہے وہاں سے کوئی تصویر آئے نہ آئے اس کا نام آتے ہی کئی تصاویر دماغ میں گھومنے لگتی ہیں۔ کچھ عرصے پہلے تک امید تھی کہ شاید بلوچستان کا مسئلہ کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر سیاسی انداز میں حل کر لیا جائے گا۔ مگر اس کے لئے دماغ بھی توسیاسی چاہیے۔ فی الحال چہار جانب شلوار قمیض اور واسکٹ یا وردی پہنے ایسے روبوٹ گھوم رہے ہیں جن کے ہاتھ میں ہتھوڑا ہے انہیں ہر مسئلہ کیل نظر آ رہا ہے۔
ماضی میں کشمیر کے لیے کشمیر کمیٹی تو بنا دی گئی تھی۔ بلوچستان کے لیے ایک بلوچستان کمیٹی بھی بنا دیں۔ معاملات کا حل گولی بندوق سے نہیں نکل سکتا۔ مسئلہ پھیلتا پھولتا اب توانا درخت بن چکا ہے۔ ماہ رنگ بلوچ سرمچاروں کی آواز بن کر سامنے آرہی ہے جو کسی صورت خوش آئند نہیں اور قابلِ مذمت ہے۔ مسائل کا حل بندوق سے نہیں نکل سکتا۔ ریاست کے خلاف بندوق اٹھانا دہشت گردی ہے اور دہشت گردی کو کھلے یا ڈھکے چھپے سپورٹ کرنا قابل مذمت ہے۔ دوسری طرف میں ریاست کو کیا سمجھاؤں، وہ خود سب سیانے ہیں۔ البتہ اپنی داستان سنا سکتا ہوں۔
بلوچستان کو میں نے اپنے سفروں میں دیکھا اور وہاں بستی عوام کے المیوں کا عینی شاہد ہوں۔ بلوچ دیہاتی خواتین کیا کچھ نہیں کرتیں۔ چودہ سال کی عمر میں شادی کرکے جب یہ پیا گھر سدھار جاتی ہیں تو گھر کا سارا کام انہی کے ذمے آ جاتا ہے۔ صبح ہوتے ہی یہ کام پہ لگ جاتی ہیں جو رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ کپڑے کشیدہ کاری کرتی ہیں، کپڑے دھوتی ہیں، کھانا بناتی ہیں اور ہر صبح پلاسٹک کی گیلن پکڑے آٹھ دس کلومیٹر چل کر پانی لاتی ہیں۔ تیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بڑھاپا ان کے گھر کے دروازے پر دستک دے رہا ہوتا ہے۔
اکیسویں صدی نے کروٹ بدلی پر بلوچ عورتوں کی قسمت نہ بدلی۔ وہی ڈھول، وہی کنواں اور کنویں سے پانی نکالنے کی مہم جوئی۔ بسا اوقات کنواں خشک ہو جاتا ہے تو پانی کے حصول کے لیے ان خواتین کو دوسرے گاؤں یا کنوئیں کی جانب دس بارہ کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کرنا پڑتی ہے۔ سروں پر بڑی بڑی منجلیں رکھ کر یا پلاسٹک کی گیلنوں میں گھروں تک پہنچایا کرتی ہیں۔
جہاں نہ صاف پانی ہو، نہ تعلیم و صحت کا مربوط نظام ہو، نہ معاشی سرگرمی ہو وہاں بلوچ مرد کیا کرے؟ احساسِ محرومی کے سائے میں پھلتی پھولتی ہوئی ایک نسل جوان ہوئی ہے۔ ایک جانب احساس محرومی، غربت اور بنیادی حقوق کی عدم دستیابی تو دوسری جانب تعلیم سے دوری۔ یہ وہ اسباب تھے جنہوں نے بلوچ نوجوانوں کے ذریعہ معاش کا حصول ناممکن بنا دیا۔ بے چینی کی فضا قائم ہوئی۔ ریاست تو انہوں نے دیکھی نہیں تھی سو اپنی ریاست قائم کرنا چاہی۔ ریاست اور غیر ریاستی قوتوں کے مابین گوریلا جنگ کا آغاز ہوا۔
بلوچستان میں چلنے والی شورش نے ایک تناؤ کی کیفیت پیدا کی۔ طاقت کی اس جنگ میں جہاں ریاستی ادارے اور علیحدگی پسند تنظیمیں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ بسا اوقات ان کا نشانہ چوک جاتا ہے۔ نشانہ وہ افراد بن جاتے ہیں جو اپنا دامن بچائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنگ چونکہ مسلط شدہ ہے، اس سے متاثر ہونا ہی ہونا ہے۔ سو اس کا نتیجہ نقل مکانی کی صورت میں نکلتا ہے۔ جنگ و جدل کی اس فضا سے متاثرہ خاندانوں کے خاندان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ نقل مکانی کا یہ سلسلہ ایک علاقہ یا ضلع تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
بے سروساماں یہ لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں نکلے۔ بہت سارے آج بھی دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے۔ ان کے زخموں کا نہ مداوا کیا گیا اور نہ ہی انہیں شیلٹر فراہم کیا گیا۔ انہیں آج بھی ایسی صورتحال دکھائی نہیں دیتی جس سے وہ دوبارہ اپنے علاقہ میں آباد ہو جائیں۔ جہاں ان کی بچپن کی یادیں وابستہ ہیں۔
جنگ کی اس فضا میں گاؤں کے گاؤں ویرانے میں تبدیل ہو گئے۔ نقل مکانی کے منفی اثرات ابھی سے واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جس کا اندازہ پچھلی مردم شماری کی نتائج سے بلوچ اور پشتونوں کی آبادی کے تقابلی جائزے سے لگایا جا سکتا ہے۔
جنگ و جدل کی اس فضا میں زیادہ نقصان وہ طبقہ اٹھا رہا ہے جو جنگی ایندھن نہیں بننا چاہتا، سہانے خواب دیکھتا ہے، خوابوں کو آنکھوں میں سجاتا ہے۔ اپنی کمائی کو بچوں کی تعلیم و تربیت پہ خرچ کرنا چاہتا ہے۔ وہ وہی خواب دیکھتا ہے جو اس ریاست کا ہر باسی دیکھتا ہے۔ وہ ایک اچھے مستقبل کا خواہاں ہوتا ہے۔ وہ روز جینے کی تمنا لے کر اٹھتا ہے لیکن شام ہوتے ہی امیدیں مایوسی سے دامن گیر ہوجاتی ہیں۔ ایک نیا المیہ جنم لیتا ہے۔
کیسی بدنصیبی پائی بلوچ نے کہ ان کے سردار اشرافیہ کا حصہ ہیں اور پھر بھی شنوائی کے واسطے کوئی نہیں۔ بلوچوں کے واسطے تو ایک ہی شعر لکھتے لکھتے یاد آیا ہے۔
نہ تیرگی سے نہ کسی روشنی سے پیدا ہوا
جو بس میں ہے وہ میری بے بسی سے پیدا ہوا