Urdu Zuban, Aik Aisi Kahani Jo Mardon Ne Likhi?
اُردو زبان، ایک ایسی کہانی جو مردوں نے لکھی؟

مولوی عبدالحق کو ان کی اردو زبان کے لیے ادبی خدمات کے اعتراف میں "بابائے اردو" کہا جاتا ہے۔ ہم نے میٹرک کے نصاب میں شامل ان کا خاکہ "نام دیو مالی" پڑھا تو ان کے لیے دل میں محبت اور عقیدت کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ ان کی کتاب "چند ہم عصر" اردو خاکہ نگاری میں اپنی مثال آپ ہے۔
مولوی صاحب کی ایک اور اہم اور مشہور کتاب "قواعد اردو" ہے۔ اس کتاب کو مشعل راہ بنا کر اردو زبان کے قواعد اور مسائل کو سمجھنا ہم جیسے نکموں کے لیے آسان ہوگیا ہے۔
عبدالحق صاحب اس کتاب میں تذکیر و تانیث کے حوالے سے لکھتے ہیں: "ان سب زبانوں (پنجابی، ہندی اور اردو) میں بڑی، بھاری بھرکم، قوی اور عظیم الشان اشیاء مذکر ہیں اور چھوٹی، کم زور اور ہلکی پھلکی چیزیں مونث، یہاں تک کہ جب اصل لفظ مذکر ہے اور اس کی چھوٹی، کمزور اور ہلکی صورت بیان کرنی مقصود ہوتی ہے تو اسے مونث بنا لیا جاتا ہے اور اسی طرح جب اصل لفظ مونث ہے اور اسے بڑی، بھاری بھرکم صورت میں لانا مقصود ہوتا ہے تو اسے مذکر بنا لیتے ہیں۔ مثلاً سنسکرت میں اصل لفظ "رشم" تھا اس سے ہندی رسّا بنا۔ یہ دونوں مذکر ہیں اس کی چھوٹی اور کمزور صورت رسّی ہے۔ سنسکرت گوڈ، تھا ہندی میں گول یا گولا بنا، یہ دونوں مذکر ہیں اس کی چھوٹی اور کمزور صورت گولی بنائی گئی ہے جو مونث ہے۔ اس طرح پگ سے پگڑی بنی جو مونث ہے اس سے پگڑ بنا جو مذکر ہے اور بڑی پگڑی کے معنوں میں آتا ہے"۔
مولوی عبدالحق کا یہ بصیرت افروز اقتباس محض لسانی قواعد کی نشاندہی نہیں کرتا، بلکہ یہ اس گہرے اور خاموش زندان کی نشاندہی کرتا ہے جس میں ہماری زبانیں اور نتیجتاً ہماری سوچ، پدرسری سماج کی جکڑ بندیوں میں قید ہے۔ ایک فیمینسٹ نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ صنفی امتیاز صرف اتفاقی لسانیاتی ارتقاء کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ اس نظام کی ایک شعوری یا لاشعوری عکاسی ہے جو مرد کو مرکزیت اور برتری عطا کرتا ہے جبکہ عورت کو حاشیے پر دھکیل دیتا ہے۔
زبان، وہ طاقتور ذریعہ جس کے ذریعے ہم اپنے خیالات، احساسات اور تجربات کا اظہار کرتے ہیں، درحقیقت سماجی ساخت کا ایک اہم ستون ہے۔ یہ نہ صرف ہماری حقیقت کو بیان کرتی ہے بلکہ اسے تشکیل بھی دیتی ہے۔ جب ہماری زبانیں اس قدر واضح طور پر طاقت اور کمزوری کے صنفی تصورات سے آلودہ ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہماری سوچ ان تعصبات سے پاک رہے؟
مولوی عبدالحق کی پیش کردہ مثالیں، رسّا اور رسّی، گولا اور گولی، پگڑ اور پگڑی، ایک ایسی دنیا کی عکاسی کرتی ہیں جہاں جسامت، طاقت اور اہمیت کو فطری طور پر مردانگی سے جوڑا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، چھوٹائی، نزاکت اور کمزوری کو زنانگی کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے۔ یہ محض الفاظ کا کھیل نہیں، یہ ایک ایسی سماجی حقیقت کی لسانیاتی تجسیم ہے جہاں مرد کو فعال، طاقتور اور اہم تصور کیا جاتا ہے، جبکہ عورت کو غیر فعال، کمزور اور ثانوی۔
فیمینسٹ لسانیات اس بات پر زور دیتی ہے کہ زبان کبھی بھی غیر جانبدار نہیں ہوتی۔ یہ ہمیشہ سماجی، سیاسی اور ثقافتی طاقت کے ڈھانچوں سے متاثر ہوتی ہے۔ پنجابی، ہندی اور اردو میں یہ صنفی تقسیم محض اتفاقی نہیں ہو سکتی۔ یہ ان صدیوں پر محیط پدرسری نظام کا نتیجہ ہے جس نے عورت کی جسمانی اور سماجی حیثیت کو ایک خاص سانچے میں ڈھالا ہے۔ عورت کی جسمانی ساخت کو اکثر 'نازک' اور 'کمزور' قرار دیا گیا ہے اور زبان اس تصور کو نہ صرف منعکس کرتی ہے بلکہ اسے مزید تقویت بھی بخشتی ہے۔
یہ صرف اشیاء کی جنس تک محدود نہیں رہتا، بلکہ یہ انسانی صفات اور کرداروں تک بھی سرایت کر جاتا ہے۔ بہادر، مضبوط، قائد جیسے الفاظ عموماً مذکر تصور کیے جاتے ہیں، جبکہ نرم دل، خیال رکھنے والی، خدمت گزار جیسی صفات کو مونث قرار دیا جاتا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ طاقت اور قیادت سے منسلک تصورات مردوں کے ساتھ جوڑے جاتے ہیں، جبکہ جذباتی اور گھریلو کردار عورتوں کے ساتھ؟
فیمینسٹ نقطہ نظر سے یہ لسانیاتی تعصبات عورتوں کے خلاف ایک خاموش اور مسلسل جنگ ہیں۔ یہ ان کے امکانات کو محدود کرتے ہیں، ان کی آواز کو دباتے ہیں اور انہیں ایک خاص دائرے میں قید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب زبان خود عورت کو 'کمزور' اور 'چھوٹا' قرار دیتی ہے تو سماج میں اس کی برابری اور خودمختاری کے لیے جدوجہد اور بھی مشکل ہو جاتی ہے۔
یہ محض لسانی قواعد کی اصلاح کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ اس گہرے سماجی شعور کو چیلنج کرنے کا معاملہ ہے جو ان قواعد کو جنم دیتا ہے۔ ہمیں اپنی زبانوں میں موجود ان پدرسری نقوش کو پہچاننا اور ان کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ ہمیں ایسے متبادل لسانی طریقوں کی تلاش کرنی ہوگی جو صنفی امتیاز سے پاک ہوں اور تمام انسانوں کو برابری کی بنیاد پر دیکھیں، قطع نظر ان کی جنس کے۔
فیمینسٹ تحریک نے ہمیشہ زبان کی طاقت کو تسلیم کیا ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں نظریات تشکیل پاتے ہیں، شناختیں بنتی ہیں اور سماجی حقیقت کی تعمیر ہوتی ہے۔ اگر ہم ایک ایسے معاشرے کی تعمیر چاہتے ہیں جہاں صنفی مساوات حقیقی معنوں میں قائم ہو، تو ہمیں اپنی زبانوں کو اس پدرسری زندان سے آزاد کرانا ہوگا۔ ہمیں ایسے الفاظ اور محاوروں کو فروغ دینا ہوگا جو عورتوں کو ان کی تمام تر طاقت، صلاحیت اور تنوع کے ساتھ پیش کریں، نہ کہ صرف ان محدود اور دقیانوسی کرداروں میں جو پدرسری سماج نے ان پر مسلط کیے ہیں۔
مولوی عبدالحق کا یہ اقتباس ایک آئینہ ہے جو ہمیں اپنی زبانوں میں موجود اس پوشیدہ تعصب کو دکھاتا ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس آئینے میں اپنی تصویر کو تنقیدی نظر سے دیکھیں اور ایک ایسی زبان کی تخلیق کے لیے جدوجہد کریں جو واقعی سب کے لیے ہو۔ یہ ایک طویل اور مشکل سفر ضرور ہے، لیکن یہ ایک منصفانہ اور مساوی معاشرے کی بنیاد رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ ہمیں اس لسانیاتی نوآبادیات سے اپنی سوچ اور اپنی زبان کو آزاد کرانا ہوگا تاکہ ہم ایک ایسی دنیا تخلیق کر سکیں جہاں ہر آواز، مرد ہو یا عورت، برابر سنی اور سمجھی جائے۔۔

