Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saeed Arshad
  4. Hard State (1)

Hard State (1)

ہارڈ سٹیٹ (1)

ابراہم لنکن امریکہ کے سولہویں صدر تھے۔ ان کا عہد صدارت 1861ء سے لیکر 1865ء تک کے چار سالوں پر محیط تھا۔ ابراہم لنکن کو امریکی تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے کیوں کہ انہوں نے آنے والے سالوں کیلئے امریکہ کیلئے ایک ایسے راستے کا انتخاب کردیا تھا کہ جس پر چل کر امریکہ نے آگے جاکر سپر پاور کی کرسی پر براجمان ہونا تھا۔ ابراہم لنکن کو تاریخ میں اسلئے بھی یاد رکھا جاتا ہے کیوں کے اُن کے صدر منتخب ہوتے ہی امریکہ میں ایک خوفناک خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا تھا جسے American Civil War The کہا جاتا ہے۔ اس خانہ جنگی کی وجہ جاننے کیلئے آپ کو تقریباً 1861ء سے بھی 250 سال پیچھے جانا پڑے گا۔

پندرہویں صدی میں یورپ میں ایک ٹرینڈ چل نکلا تھاکہ یورپین سیاح دنیا کو کھوجنے اور نئی نئی دنیا اور خطے دریافت کرنے کیلئےگروہوں کی شکل میں بڑی بڑی کشتیوں پر نکلتے تھے اور مہینوں یا سالوں سمندر وں میں بھٹکتے رہتے تھے۔ اُن میں سے کوئی ایک نا ایک گروہ کوئی نا کوئی نئی دنیا یا خطہ دریافت کرہی لیتا تھا اور پھر باقی یورپی سیاح بھی اسی نئی دنیا یا خطے کی طرف رخت سفر باندھ لیتے تھے۔ امریکہ بھی اسی طرح دریافت ہوا تھا جب کرسٹوفر کولمبس اسپین سے اپنے بحری جہاز پر انڈیا کو ڈھونڈنے نکلا تھا مگر امریکہ پہنچ گیا اور یوں امریکہ دریافت ہوگیا۔ بعد میں یورپی لوگوں خاص کر برطانوی آبادکاروں نے ہی امریکہ کو آباد کیا تھا اور جو لوگ پہلے سے امریکہ میں آباد تھے کہ کہ کہ جنہیں Native Americans کہا جاتا تھا اُن کے ساتھ کیا ہوا یہ ایک الگ درد ناک داستان ہے۔ آج کل امریکی زیادہ تر انہی برطانوی آبادکاروں کی اولادیں ہیں کہ جو امریکہ دریافت ہونے کے بعد یواں آکر آباد ہوئے تھے اور اسی لئے انگریزی امریکہ کی زبان ہے۔

جو یورپی سیاح گروہ کی صوررت میں سمندروں میں بھٹکتے تھے انہی میں سے ایک گروہ نے 1488ء میں افریقہ دریافت کیا تھا۔ افریقی لوگ تب جنگلوں میں قبیلوں کی صورت میں رہتے تھے اور ان کا باہر کی دنیا سے کوئی خاص واسطہ نہیں تھا۔ ان کے مقابلے میں جو یورپی سیاح افریقہ پہنچتے اُن کے پاس جدید اسلحہ اور بندوقیں ہوتی تھی۔ ان یورپی سیاحوں نے افریقی لوگوں کا شکار کرکے اور انہیں زنجیروں میں باندھ کر یورپ میں لاکر غلاموں کی صورت میں بیچنا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ کاروبار چند سالوں میں ایک باقاعدہ انڈسٹری کا درجہ اختیار کرگیا۔ یورپی لوگ بڑی بڑی کشتیوں میں جدید اسلحے کے ساتھ افریقا پہنچتے اور افریقی لوگوں کو زنجیروں میں باندھ کر یورپ میں لا کر غلام بنا کر بیچ ڈالتے۔ افریقی لوگ چونکہ جسمانی طور پر بہت مضبوط ہوتے تھے اور خوراک کی تھوڑی سی مقدار پر بھی زندہ رہنے کا ہنر جانتے تھے تو یوں یہ افریقی غلام یورپ میں ہاتھوں ہاتھ بکنے لگے۔

سولہویں صدی کےآغاز تک امریکا بھی دنیا کے نقشے پر نظر آنا شروع ہوگیا تھا۔ تب امریکہ میں امریکیوں کو ایک بہت بڑے مسئلے کا سامنا تھا اور وہ یہ کہ امریکہ رقبے کے لحاط سے بہت بڑا ملک ہے اور امریکیوں خاص کر کسانوں کو کاشتکاری کیلئے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اتنے بڑے رقبے کی کاشت اور جانوروں کی دیکھ بھال کیلئے انہیں بہت سے لوگوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ زیادہ لوگ مطلب زیادہ اخراجات اور اگر کسی کسان کو ایسی افرادی قوت میسر آجائے جو جسمانی لحاظ سے زیادہ طاقتور اور خوراک کی معمولی مقدار پر بھی زندہ رہنے کا ہنر جانتی ہو اور جنہیں اُن کی مزدوری کے عوض پیسے ادا کرنے کی بھی ضرورت نا ہو بلکہ اُن غلاموں کی زندگی بھی اپنے مالکوں کے ہاتھوں میں ہو کہ وہ جب چاہے جس مرضی مزدور کو قتل کردیں اور ان سے کوئی پوچھ گچھ نا ہو تو ایسی افرادی قوت یا غلاموں کو کوئی کیونکر منع کرے گا۔

بس یہی بات امریکہ میں بھی غلاموں کی تجارت کی وجہ بنی۔ ایک اندازے کے مطابق غلاموں کی تجارت والا پہلا بحری بیڑا 1620ء یا اُس کے آس پاس امریکہ میں فروخت ہونے کیلئے پہنچا۔ امریکیوں نے افریقی غلاموں کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس کے بعد اس کاروبار نے امریکہ میں بھی اپنی جڑیں مضبوطی سے گاڑھ لیں۔ وقت تیزی کے ساتھ گزرتا گیا اور امریکہ کی شمالی ریاستوں میں صنعتی انقلاب بر پا ہوگیا۔ دنیا تیزی کے ساتھ کاشتکاری سے صنعتکاری کی طرف منتقل ہورہی تھی اور امریکہ بھی اس تبدیلی سے مستثنیٰ نہیں تھا۔ صنعتی انقلاب کے ساتھ ساتھ لوگوں میں یہ شعور بھی بڑھ رہا تھا کہ غلامی بہت بری چیز ہے اور تمام انسانوں کو برابر حقوق حاصل ہونے چاہیئے۔ جبکہ امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں صنعتی انقلاب کی باز گشت ابھی اتنی شدت سے نہیں پہنچی تھی اور وہاں کی معیشت کا دارومدار ابھی بھی بڑی حد تک کاشتکاری پر مشتمل تھااور وہاں کے کسان کسی بھی صورت غلامی کو ختم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کسانوں کے ساتھ ساتھ غلاموں کی تجارت سے منسلک کاروباری لوگ بھی غلامی کو ختم کرنے کے سخت خلاف تھے۔

وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ شدت اختیار کر گیا۔ امریکہ باقاعدہ دو حصوں میں بٹ گیا۔ ایک طرف شمالی ریاستیں جو غلامی کے خلاف تھی اور دوسری طرف جنوبی ریاستیں جو ہر صورت غلامی کو برقرار رکھنا چاہتی تھی۔ شمالی ریاستوں پر مشتمل اتحاد کو The Union (North) جبکہ جنوبی ریاستوں پر مشتمل اتحاد کو The Confederacy (South) کہا جاتا تھا۔ سارے امریکہ کو اندازہ تھا کہ جنگ آج نہیں تو کل شروع ہو ہی جائے گی۔ دونوں اطراف پر جنگوں کی تیاریاں عروج پر تھی کہ تبھی امریکہ میں 1861ء کے الیکشن آگئے۔ ابراہم لنکن پیشے کے لحاظ سے وکیل اور انسانی حقوق کے بہت بڑے حمایتی تھے۔ لنکن نے اپنی پوری الیکشن کمپین میں یہ بات بالکل واضح کردی تھی کہ اگر وہ صدر منتخب ہوئے تو وہ غلامی کو ختم کردیں گے۔

1861ء کے الیکشن ہوئے اور ابراہم لنکن امریکہ کے سولہواں صدر منتخب ہوگئے۔ الیکشن کے چند دن بعد ہی جنوبی ریاستوں کی فوج نے شمالی ریاستوں پر حملہ کردیا اور امریکہ میں خونریز خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا۔ یہ خانہ جنگی چار سال تک جاری رہی اور ان چار سالوں میں آٹھ لاکھ بیس ہزار لوگ براہ راست اس جنگ میں مارے گئے جوکہ تب کے امریکہ کی مجموعی آبادی کا 3 فیصد تھے جبکہ اس جنگ کے نتیجے میں پھیلنے والی بیماری اور بھوک کی وجہ سے مزید سات لاکھ لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے۔ چار سال بعد 1865ء میں یہ جنگ جنوبی ریاستوں کی مکمل شکست پر ختم ہوئی اور ابراہم لنکن اس جنگ کا فاتح ٹھہرا۔ ابراہم لنکن نے آئین میں تیرہویں ترمیم (13th Amendment) کرکے غلامی کو ہمیشہ کیلئے امریکہ میں ختم کر دیا۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz