Bukhari Sahib Tuhanu Peca Ne e Lena
بخاری صاحب تہانوں پیکا نے ای لینا

پیکا ایکٹ میں دن رات لوگ دھرے جا رہے ہیں۔ دو دن پہلے ایک افطار کم سیمینار نشاط ہوٹل کی تقریب میں میں نے سٹیج سے کچھ باتیں کیں تو نیچے اُترتے ہی ایک صحافی دوست اور اینکرنے مزاقاً کہا "بخاری صاحب تہانوں پیکا نے ای لینا"۔ میں نے ہنس کے ان کی تعریف کی کہ کمال است۔ واقعی اب پیکا ہی مولا ہے۔۔
یوں بھی نہیں کہ یہ ملک کبھی اظہار رائے میں آزاد تھا یا رہا ہے۔ مگر اب چونکہ سٹیٹ کو مزید سخت لونڈا (ہارڈ سٹیٹ) بنانے کی پالیسی ہے اس لیے ٹالرینس لیول اب زیرو سے بھی نیچے منفی میں جا چکا ہے۔ سنہ 2015 میں سوات آپریشن کے بعد وزٹ کرکے دو کالم لکھے تھے مگر پاکستان کے ایک بڑے میڈیا ہاؤس نے کہا کہ ان کو ذرا "ٹون ڈاؤن" یا موڈیفائی کر دوں اور فلاں قصہ اس میں سے حذف کر دوں۔ وہ پھر نہیں چھپ سکے۔ وجہ بس یہ کہ جو دیکھا اور جو عینی شاہدین سے سنا تھا وہ لکھا تھا۔ آپریشن کے بعد سوات میں چھاؤنی بنانے کو ٹماٹر کے کھیت کیسے حاصل کیے گئے۔ کھیت مالکان کو کیا جھیلنا پڑا۔
اور پھر ٹی ٹی پی نے جو کیا۔ اس نے کیسے لوگوں کو یرغمال بنایا۔ اپنے جنگجوؤں سے زبردستی نکاح کروائے گئے۔ سکول جاتی لڑکیوں کو ہراساں کیا گیا۔ اس ملک میں ہر لکھنے بولنے والے کو دو طرفہ خطرہ ہے۔ ایک خطرہ تو مسنگ پرسن بننے کا ہے دوسرا ان گروہوں کی جانب سے جو اینٹی سٹیٹ اور مسلح ہیں۔
بظاہر نظام نے جمہوریت کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ پسِ پردہ ہر وہ قانون نافذ العمل ہے جو غیر جمہوری ہے۔ جس کا ہونا جمہور کے حق پر ڈاکا ہے۔ سیاسی جماعت چاہے کوئی بھی ہو اس کے جینون کارکنان اور ہمدردان آپ کے ساتھ نہیں۔ پشتون اور بلوچ بیلٹ آپ کے ساتھ نہیں۔ پنجاب اور سندھ کا بڑا طبقہ آپ کے ساتھ نہیں۔ تو پھر آپ کو اپنی اداؤں پر فوری اور شدید غور کرنے کی ضرورت ہے۔ قانون کو اندھا بہرہ ہونا چاہئیے یعنی سماج کے ہر طبقے کے لیے یکساں لاگو ہو۔ ریاست کو اندھا بہرہ نہیں ہونا چاہئیے۔
کوئی بھی انسان ایک رات میں انارکسٹ یا سماجی بے چینی کا شکار نہیں بنتا۔ پہلے عام آدمی ریاستی اداروں سے اپنی تکالیف کا اظہار چند بنیادی مطالبات کی شکل میں کرتا ہے اور ان میں سے آدھے بھی پورے ہو جائیں تو کئی برس کے لیے مطمئن ہو جاتا ہے۔ اگر نہ پورے ہوں تو پھر وہ توجہ دلانے کے لئے احتجاجی طریقے اختیار کرتا ہے۔ اس سے بھی فیصلہ سازوں کے کان پر جوں نہ رینگے تو پھر وہ اداروں اور شخصیات کی جانب انگلی اٹھانے لگتا ہے۔ تب بھی اس کے حقیقی مسائل کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے تو پھر وہ اداروں اور شخصیات کے نام لے لے کر گالم گلوچ پر اتر آتا ہے۔ یہی فرد کی نفسیات ہے اور افراد کی نفسیات مل کر اجتماعی قومی نفسیات میں ڈھل جاتی ہے۔
اگر تب بھی ریاستی کرتے دھرتوں کا بہرہ و اندھا پن برقرار رہے تو عام آدمی بے ہنگم ہجوم کی شکل اختیار کرکے ریاستی سمبلز کے سامنے تن جاتا ہے اور بے خوف ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ بے خوفی انارکی کا زہر پھیلاتی ہے۔ اس انارکی کو کون سا گروہ یا شخص لیڈ کرے گا یہ بھی کوئی نہیں جانتا۔ کیونکہ اس طرح کی صورتِ حال اپنے لیڈر خود پیدا کرتی ہے۔ اس مرحلے پر نہ کوئی اسپرین کام کرتی ہے اور نہ ہی کیمیو تھراپی، نہ کوئی چالاکی۔ یہی وقت ہے جب خوف ایجاد کرنے والے خود خوفزدہ ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور سماجی و قانونی ڈھانچہ خس و خاشاک کی طرح بکھرنے لگتا ہے۔
مسئلہ تو یہ ہے کہ جو شے جہاں پر ہونا چاہئیے تھی وہ وہاں پر نہیں ہے۔ مثلاً قومی اسمبلی کے ماتھے پر بڑا سا کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ مگر آرمی ویلفئیر ٹرسٹ کے ہیڈکوارٹر راولپنڈی کی عمارت پر جو آیت کریمہ درج ہے اسے دیکھ کر تو سارا منظرنامہ کھُل جاتا ہے۔ بڑے بڑے حروف میں جو آیت درج ہے اس کا ترجمہ ہے
"جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ نے تمہارے تابع کر دیا ہے"۔

