Nizami Street Baku (3)
نظامی سٹریٹ باکو (3)

شکیب نے بات جاری رکھی "اچیری شہر قلعہ سے شروع ہونے والی تمام سمتوں میں نئی شاہراہوں کی تعمیر ان کی شہری منصوبہ بندی کا مرکز تھی، اس ڈیزائن کا فلسفہ 1864 میں بنائے گئے باکو کے پہلے گورنریٹ شہری منصوبے میں جھلکتا ہے، رشین میں اس کو "تورگووایا" یعنی مرچنٹ سٹریٹ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کی حیثیت تجارتی مرکز تھی، ایوان صنعت و تجارت بھی اسی سٹریٹ پر تھوڑا آگے واقع ہے، بعد میں، 1879 میں اسے سرکاری طور پر "گوربنسکایا سٹریٹ" کا نام دیا گیا، لیکن شہری اب بھی اسے "تورگووایا" کہتے ہیں، یہ گلی مارینسکایا سٹریٹ (بعد میں کورگنوف سٹریٹ، اب رسول رضا سٹریٹ) سے شروع ہوئی، جہاں امیر لوگوں کے مشہور کثیر المنزلہ مکانات واقع تھے اور باکو کے "بلیک سٹی" تک پہنچ گئے، جہاں تیل کے کنویں اور دیگر صنعتی سرگرمیوں کا علاقہ تھا۔
19ویں صدی کے آخر میں جزیرہ نما آبشیرون میں تیل کے نئے کنوؤں کی دریافت کے بعد روسی سلطنت کے علاقوں سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے اس علاقے کا رخ کیا جس کی بدولت شہر کی تیز رفتار اقتصادی ترقی ہوئی، سمندری بنیادی ڈھانچہ بھی تیار کیا گیا اور قلعہ ورسٹادٹ اور سمندری بندرگاہ کے عمومی منصوبے کو نمایاں طور پر وسعت دی گئی تھی اور یہ شہر بالآخر جنوبی روس کے اہم ترین تجارتی مراکز میں سے ایک بن گیا، باکو کی تیز رفتار اقتصادی ترقی کے بعد متمول صنعت کاروں کی آمد ہوئی جنہوں نے نئی عمارتوں کی تعمیر شروع کی، اس سٹریٹ پر بڑی تعداد میں کئی منزلہ عمارتیں آئل مرچنٹ آغا موسیٰ ناغییف، شمسی اسداللہیف اور مرتضیٰ مختاروف نے تعمیر کیں اور ان کا ڈیزائن نامور معماروں نے تیار کیا تھا۔
شکیب کی معلومات میرے لئے حیران کن تھیں، واقعی اتنے برسوں میں وہ بہترین ٹور گائیڈ بن چکا تھا، "چلو اب تمہیں دکھاتے ہیں وہ جگہ جہاں آرٹ بولتا ہے اور دل فریم میں قید ہو جاتے ہیں "، ہم نظامی اسٹریٹ کی اُس طرف چل پڑے جہاں دیواروں پر تصویریں جھولتی ہیں، سڑک پر رنگ بکھرے ہوتے ہیں اور ہر آرٹسٹ اپنے برش سے کوئی نہ کوئی عشق رقم کر رہا ہوتا ہے۔
پہلی گیلری کے باہر ہی ایک بابا جی بیٹھے تھے، ہاتھ میں پینسل، سامنے خالی کینوس اور چہرے پر ایسی سنجیدگی جیسے دنیا کا نقشہ دوبارہ بنانا ہو، شکیب نے شرارت سے پوچھا "بابا، ہمارا رومانوی خاکہ بنے گا؟"
بابا جی نے نظریں اٹھا کر ہمیں دیکھا، مسکرائے اور بولے "پہلے بتاؤ، محبت پکی ہے یا چائے کی پیالی جتنی گرم؟"
ہم دونوں ہنسے اور ان تصویروں کو دیکھتے ہوئے اندر داخل ہوئے، اندر ہر دیوار ایک منفرد احساس تھی، کہیں محبت کی نظر، کہیں تنہائی کا عکس، کہیں صرف ایک سپاٹ چہرہ، جسے دیکھ کر ایسا لگے کہ کوئی آنکھوں سے دل کا حال بیان کر رہا ہے۔
ایک کونے میں ایسی تصویر بھی تھی جس میں ایک لڑکا اور لڑکی ایک ہی چھتری تلے کھڑے تھے، بارش ہو رہی تھی لیکن زمین پر صرف دلوں کی شکل میں قطرے پڑ رہے تھے، میں بے ساختہ بول پڑا۔
"یار شکیب، اگر میری زندگی فلم ہوتی تو یہ پوسٹر ہوتا"۔
شکیب نے جھٹ جواب دیا "اور فلم کا نام ہوتا، جٹ وِد محبت انڈر امبریلا"۔
اس کے بعد ہم نکلے ایک چھوٹی سی، لیکن بےحد پیاری گفٹ شاپ کی طرف، شیشے کی الماریاں، رنگین لائٹس اور اندر ایک دادی اماں جیسی خاتون جو ہر گفٹ کو ایسے صاف کر رہی تھیں جیسے اپنی یادیں تازہ کر رہی ہوں، شکیب نے مجھے ایک چھوٹا سا، دل کی شکل والا مگ دکھایا، جس پر لکھا تھا
"From Baku, with Love"
مجھے یہ کپ پسند آیا "یہ لے لیتے ہیں، جب جب اس میں چائے یا کوفی پیئوں گا، محبت گھونٹ گھونٹ ساتھ ہوگی"۔
شکیب بولا "اور جب دل ٹوٹے، یہی مگ دیوار پر مار کر مکمل سینمائی تجربہ لے لینا"۔
ہم دونوں نے ایک ایک مگ خریدا، کچھ پوسٹ کارڈز اور تھوڑے سے فریج میگنیٹس بھی، کیونکہ یادیں ہر جگہ سجانی چاہییں۔
شکیب نے گفٹ شاپ سے نکلتے ہوئے گہری سانس لی اور بولا "اب اصل نظارہ شروع ہوتا ہے جناب، نظامی سٹریٹ کی شام یعنی آذربائیجان کی فلم کا گولڈن آور"۔
چلتے چلتے ہم ایک کارنر پر پہنچ گئے تھے، شکیب ایک چار منزلہ پرشکوہ عمارت کی طرف اشارہ کرکے بولا "وہ سامنے آئل مرچنٹ آغا موسیٰ ناغییف کا گھر ہے"۔ واقعی بڑی شاندار عمارت تھی، اپنی تعمیر کے وقت سے اب تک سربلند کھڑی تھی، اب ہم فوڈ والے حصے کی طرف آ گئے تھے، شکیب نے کھانے کا پوچھا، یہاں انواع و اقسام کے ریستورانوں کی ایک لمبی قطار تھی، پاکستانی و انڈین ریسٹورنٹ بھی نطر آئے، ایک پاکستانی لڑکا ہاتھ میں مینیو پکڑے گاہکوں کو متوجہ کر رہا تھا۔
جب میں کسی نئے علاقے میں قدم رکھتا ہوں تو سب سے پہلے میرے دل کی زبان بولتی ہے "مقامی کھانا ہونا چاہیے، چاہے معدہ غیر مقامی ردعمل دے"۔ میری اسی جذباتی فرمائش پر ہم ایک مقامی ریستوران میں گھسے اور گھسنا واقعی مناسب لفظ ہے، کیونکہ جو کچھ اندر ہوا وہ کسی رومانی مزاحیہ فلم کا سین لگ رہا تھا۔
ریستوران میں داخل ہوتے ہی شکیب کی شخصیت میں ایسی چمک آئی جیسے وہ اس جگہ کا سابقہ شہزادہ ہو اور اس کی بادشاہت اب بھی قائم ہو، کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھا ریستوران مالک اُچھلتا ہوا باہر آیا اور بغیر ویزا و اجازت، شکیب کے رخساروں پر "چٹاخ چٹاخ" محبت بھرے بوسے جڑ دیے، میں نے سوچا، یا اللہ! اگر یہی ویلکم پیکج ہے، تو میں تیار ہوں۔۔ مگر پھر اچانک مجھے بھی"مہمانِ خصوصی" سمجھ لیا گیا اور میں بھی اُس محبت بھرے حملے کا شکار ہوگیا، شکیب بولا "یہاں کھانے سے پہلے محبت کا ذائقہ چکھایا جاتا ہے"۔
ریستوران کے باہر ٹیبلوں پر اور اندر ہال میں ایسی بھیڑ تھی جیسے وہاں مفت بریانی بٹ رہی ہو، ہم اوپری منزل کی طرف بڑھے، جو کہ ایک رومانی بلندی کی جانب سفر تھا، کونے کی ایک چھوٹی سی، پر کشش جگہ پر قبضہ جما کر شکیب نے بڑے پیار سے مینیو میری طرف بڑھایا، میں نے یونہی دیکھنے کا ڈرامہ کیا، پھر ادا سے شکیب کی طرف واپس کر دیا۔
"جو دل چاہے آرڈر دیدو، لیکن کھانا مقامی ہو"۔۔
شکیب نے ویٹر کو آرڈر لکھوایا جیسے وہ میری خواہشات کو کچن تک پہنچا رہا ہو۔

