Dome Of The Rock
ڈوم آف دا روک

پاکستان میں جہالت اور جذبات عروج پر ہیں تو اس میں مولویوں کے ساتھ کچھ حصہ میڈیا کا بھی ہے۔ غلط سلط خبریں پھیلاتے ہیں اور درست خبروں کی اینگلنگ کرتے ہیں، یعنی مرضی کا زاویہ دیتے ہیں۔
اب ذرا دھیان سے سچ جاننے کی کوشش کریں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ یروشلم کا نام بیت المقدس کیوں ہے؟ کیا مسجد اقصیٰ کی وجہ سے؟ جی نہیں۔ گنبد صخریٰ کی وجہ سے۔
گنبد صخریٰ کیا ہے؟ یہ یہودیوں کا سب سے مقدس مقام ہے۔ یہ چھوٹی سی عمارت ہے جو ایک چٹان پر بنائی گئی ہے۔ اسے انگریزی میں ڈوم آف دا روک یعنی چٹان کا گنبد کہا جاتا ہے۔
بعض مسلمان کہتے ہیں کہ رسول اللہ اس چٹان سے آسمان کی طرف روانہ ہوئے۔ لیکن جب ہم سوال اٹھاتے ہیں کہ مسجد اقصی رسول اللہ کے زمانے میں تھی ہی نہیں، تو علمائے اسلام پینترا بدل کر کہتے ہیں، مسجد اقصیٰ کا مطلب ہے دور کی مسجد۔ وہ مسجد جو آسمان پر بیت المعمور میں ہے۔ پھر آپ ڈوم آف دا روک چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟
مسجد اقصیٰ بھی گمراہ کن نام ہے۔ اس احاطے کا نام اقصیٰ کمپاونڈ ہے جس میں کئی عمارتیں ہیں۔ مسلمانوں نے ان سب کو مسجد کا نام دیا ہوا ہے لیکن نماز صرف ایک مرکزی مسجد میں ہوتی ہے۔ اس کا نام مسجد قبلی ہے۔
مسجد قبلی اور ڈوم آف دا روک میں کافی فاصلہ ہے۔ مسجد میں ہزاروں افراد بھی نماز پڑھیں تو ڈوم تک نہیں پہنچتے۔
کمپاؤنڈ یہودیوں کے لیے مرکزی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ وہ ان کا ہیکل سلیمانی ہے۔ وہ اس کی ایک دیوار کے باہر کھڑے ہوکر عبادت کرتے ہیں، جسے ویسٹرن وال یا دیوار گریہ کہتے ہیں۔
یہودیوں کی اکثریت اپنے مسیحا کی آمد تک اندر ہیکل میں داخل ہونے کو درست نہیں سمجھتی۔ میرا خیال ہے کہ صرف ایک فرقے کے یہودی اسے جائز کہتے ہیں اور وہ حکومت کی اجازت سے اندر جاکر عبادت کرتے ہیں۔
اندر کہاں؟ ظاہر ہے کہ ڈوم آف دا روک۔ انھیں مسجد قبلی یا کسی اور مقام سے کوئی دلچسپی نہیں، اگرچہ تاریخی طور پر پورا کمپاؤنڈ ہیکل سلیمانی ہے۔
جب پاکستانی میڈیا شور مچاتا ہے کہ اسرائیلی فوجی یا یہودی مسجد اقصیٰ میں گھس گئے تو وہ لاعلمی میں یا شرارتاً جھوٹ پھیلاتا ہے۔
وہ مسجد میں نہیں جاتے۔ یہ یہویوں کا اعلی ظرف ہے کہ انھوں نے اپنے ملک میں، طاقت اور اختیار کے باوجود، خود کو دشمن کہنے والوں کو، اپنے سب سے مقدس مذہبی مقام کا قبضہ دیا ہوا ہے۔ وہ کبھی نماز کے مقام کی طرف نہیں جاتے۔ وہ غیر ملکی مسلمانوں کو بھی مکمل تسلی کے بغیر اقصی کمپاونڈ کے دروازے سے آگے نہیں جانے دیتے۔
ان کے صرف گنتی کے چند افراد مخصوص اوقات میں کبھی کبھار صرف ڈوم آف دا روک تک جاتے ہیں۔ وہ کوئی ہنگامہ نہیں کرتے۔ کسی کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ مسلمانوں کے مقدسات کا احترام کرتے ہیں۔
اس احترام کا صلہ مسلمان ملکوں کا میڈیا نفرت انگیز پروپیگنڈے سے دیتا ہے۔ انجام یہ ہوتا ہے کہ اسرائیل کو تو فرق نہیں پڑتا، ان ملکوں ہی کے اندر ہنگامے ہوتے ہیں، تشدد ہوتا ہے اور اپنے ہی لوگ مارے جاتے ہیں۔