Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. India Hamare Darya e Chenab Ke Sath Kya Kar Chuka Hai?

India Hamare Darya e Chenab Ke Sath Kya Kar Chuka Hai?

انڈیا ہمارے دریائے چناب کے ساتھ کیا کر چُکا ہے؟

دریائے چناب کے پانی کو استعمال کرنے پر سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کا حق تسلیم شُدہ ہے لیکن دریائے چناب انڈیا اس وقت کا پاور کوریڈور بن چُکا ہےجس پر انڈیا کے 70 سے زیادہ ہائیڈروالیکٹرک پاور اسٹیشن کے منصوبے تعمیر کے مختلف مرحلوں میں ہیں جن سے پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار ہمارے منگلا اور تربیلا ڈیم کی کل پیدا ہونے والی بجلی سے زیادہ ہوگی۔

دریائے چناب پر نہ صرف دو نئے ہائیڈروپاور پلانٹس کی تعمیر شروع کردی ہے۔ دونوں متنازعہ ہائیڈرو پراجیکٹس 624 میگا واٹ کے "کیرو" اور 540 میگا واٹ کے "کوار" کے ڈیزائن انڈس واٹر ٹریٹی کی شقوں کی سراسر خلاف ورزی ہیں۔

بھارت دریائے چناب پر سلال ڈیم اور بگلیہار ڈیم سمیت چھوٹے بڑے 11 ڈیم مکمل کر چکا ہے۔ دریائے جہلم پر وولر بیراج اور ربڑ ڈیم سمیت 52 ڈیم بنا رہا ہے دریائے چناب پر مزید 24 ڈیموں کی تعمیر جاری ہے اسی طرح آگے چل کر مزید 190 ڈیم فزیبلٹی رپورٹس، لوک سبھا اور کابینہ کمیٹی کے پراسس میں ہیں۔

انڈیا میں دریائے چناب کی لمبائی پانچ چھ سو کلومیٹر سے زیادہ نہیں لیکن اتنی کم لمبائی میں اتنے زیادہ منصوبے لگانے کی وجہ سے یہ بہتا دریا مُردہ ہو جانے کا خدشہ ہے۔ دریا میں پانی کا قدرتی بہاؤ نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔ آبی مخلوق کی تہذیب برباد ہوجائے گی اور وادی کے بہت سے لوگ بے گھر ہوکر دربدر ہو جائیں گے۔

ہماچل پردیش میں جہاں سے اس دریا کا سفر شروع ہوتا ہے وہاں صرف سو کلومیٹر کی لمبائی میں چناب پر 50 ہائیڈروالیکٹرک پاور پلانٹ تعمیر ہورہے ہیں یعنی ہر دو کلومیٹر کے بعد ایک پاور پلانٹ۔

ریاست جموں اور کشمیر پہنچنے پر یہ صورت حال اور گھمبیر ہو جاتی ہے جہاں چناب پر بڑے سائز کے ڈیم تعمیر ہو رہے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق صرف جموں کش میر میں چناب سے بجلی کی پیداوار 9000 میگاواٹ ہوگی جوکہ پاکستان کی ہائیدڑوالیکٹرک کی کل پیداوار کے برابر بنتی ہے۔

540 میگا واٹ کیپسٹی کا نیا بننے والا کیرو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ دریائے چناب کے کنارے پتھرناکی اور کیرو گاؤں کے قریب تعمیر کیا جا رہا ہے، جو کشتواڑ سے تقریباً 42 کلومیٹر دور ہے۔

اسی طرح 624 میگاواٹ کا "کیرو" ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ مقبوضہ کش میر میں رن آف ریور سکیم کے طور پر بنایا جا رہا ہے اس کا سنگ بنیاد 2019 میں رکھا گیا تھا اور امید ہے کہ یہ سال 2025 میں بجلی بنانا شروع کردے گا۔ کیرو کے قریب 135 میٹر اونچا کنکریٹ گریویٹی ڈیم کی تعمیر شامل ہے۔

پاکستان کو دریاوں پر رن آف رِور پراجیکٹس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن پاکستان کا موقف ہے کہ بہتے دریا کے ان منصوبوں کے لئے جتنی سٹوریج چاہئے ہوتی ہے بھارت اس سے کئی گنا بڑی سٹوریج بنالیتا ہے اور یوں پاکستان کا پانی رک جاتا ہے۔ اسی طرح ان منصوبوں کے گریوٹی ڈیم میں نچلی آوٹ لٹ نہیں رکھی جاتی، اسپل وے اونچا رکھ دیا جاتا ہے۔

پاکستان کا موقف ہے کہ سندھ طاس منصوبے کے برخلاف پاکستان کو ان منصوبوں کے ڈیزائین کی تفصیلات معلومات نہیں دی جاتیں یا پھر غلط معلومات دی جاتی ہیں اور یا اتنی دیر سے معلومات دی جاتی ہیں کہ پاکستان کے پاس اپنا رد عمل دینے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی شقوں کے مطابق پاکستانی وفد کو ان منصوبوں کی تعمیر سے پہلے یا تعمیر کے دوران دورہ بھی نہیں کرایا جاتا۔

ہندوستان بجلی کے ان منصوبوں پر سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستانی اعتراضات کو غیر ضروری سمجھتا ہے۔ اِن کا موقف ہے کہ چونکہ وہ پانی کا رُخ دریا سے دوسری طرف نہیں موڑ رہے بلکہ چلتے پانی سے بجلی پیدا کر رہے ہیں اِس لئے پاکستان کو اعتراض کا کوئی جواز نہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیر پنجال کے قدرتی پہاڑی سلسلے کی وجہ سے چناب کے پانی کو باقی ہندوستان کی طرف موڑنا تکنیکی طور پر ممکن نہیں۔ وادی میں دریائے چناب کی قدرتی ڈھلوان بھی ایک کلومیٹر کے بعد 24 میٹر ہے جسے استعمال کرکے انڈیا بجلی بنانا چاہتا ہے۔

تاہم صورت حال اتنی سادہ بھی نہیں۔ زیر زمین سرنگوں کے ذریعے دریا پیر پنجال کے نیچے سے گزار کرکے جانا اب تکنیکی طور پر ممکن ہے گو یہ مہنگا پڑے گا لیکن پاکستانیوں کے لیے یہ منصوبہ ایک بھیانک خواب ثابت ہو سکتا ہے۔

تاہم جب مودی 2016 میں اُڑی واقعے کے بعد یہ اعلان کررہا ہو کہ "خُون اور پانی اب ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے" تو کچھ بھی ممکن ہے۔ بھارتی منصوبوں پر اعتراض نہ کرنے کا مطلب خاموشی سے اپنے حق سے دستبردار ہونا ہے۔

ہندوستانی موقف پر یوں بھی سوالیہ نشان اُٹھتا ہے کہ انڈیا کے سنٹرل واٹر کمیشن نے حال ہی میں وادی میں دریائے چناب پر پانی کے بہاؤ میں اضافہ نوٹ کیا ہے جس کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے گلیشئیرز کا پگھلنا ہے۔ لہذا پانی کی اضافی فراہمی سے وادی میں نئے بننے والے تمام ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹس کی استعداد پچیس فی صد بڑھا دی گئی ہے۔

لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دریائے چناب سے انڈیا سے مرالہ کے مقام پر پاکستان میں آنے والا پانی ہر سال کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے۔ لہذا یہ سوال بالکل جائز بنتا ہے کہ یہ بجلی بنانے کے لئے ابڈے میں استعمال ہونے واکا اضافی پانی پاکستان کیوں نہیں پہنچ رہا؟

Check Also

Caligula Dar Asal Aik Soch Ka Naam Hai

By Rao Manzar Hayat