Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Jab Dil He Sanam Khana Thehre

Jab Dil He Sanam Khana Thehre

جب دل ہی صنم خانہ ٹھہرے

بے شمار درود و سلام سرور کونین سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔

توحید کا نقطہ سمجھ تو آ سکتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ جب دل ہی صنم خانہ ٹھہرے۔ دل کے صنم رکاوٹ ہیں توحید اور رسالت کی بنیاد تک پہنچنے کے لیے، اپنے دل کو پاک کر لیں تو دل ہی کعبہ ہے۔

اِس نفسا نفسی کے دور میں دل میں بہت سے صنم سما گئے ہیں جن میں سب سے بڑا دولت کی ہوس ہے، آج کے دور کے انسان نے اپنی ضروریات کو اتنا بڑھا لیا ہے کہ وہ اِن کو پورا کرنے کے لیے تمام عمر بھاگتا دوڑتا پھرتا ہے اور پھر یہ نہ ختم ہونے والی دوڑ جس کی کہ کوئی منزل نہیں کوئی پڑاؤ نہیں یہ چلتی ہی رہتی ہے۔

دولت کی محبت اپنے ساتھ غریب ہونے کا خوف بھی لے کر اتی ہے اور انسان آخر کار بے خیال زندگی گزار کے عبرت ناک انجام سے دوچار ہوتے ہوئے قبر میں جا اترتا ہے۔

جب دولت ہی محبوب ٹھہرے تو پھر کسی اور محبوب کی دل میں جگہ نہیں ہو سکتی، آج کے دور کا محبوب دولت ہے۔

توحید کے ماحظ تک پہنچنے کے لیے دولت سے رغبت کم کرنی پڑے گی پھر ہی بات سمجھ آئے گی، آپ لاکھ سمجھائیں، لاکھ دلائل دیں، محبتوں پہ نسبتوں پہ اطاعتوں پہ بات دل تک نہیں اترتی۔

روحانیت کے سفر میں کچھ حاصل کرنے سے زیادہ بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے، پھر ہی قدم آگے بڑھ سکتے ہیں، لیکن حضرت انسان یہ چاہتا ہے کہ اُس کو تمام منازل طے ہو جائیں اور کچھ چھوڑنا بھی نہ پڑے چھوڑنے میں سب سے پہلے دولت سے محبت ہے۔

کچھ دوست کامل پیر تو ڈھونڈتے رہتے ہیں، کامل مرشد تو ڈھونڈتے رہتے ہیں لیکن وہ اپنے دل کو کورا کاغذ نہیں بنا پاتے، اگر دل کورا کاغذ نہ ہو تو اس پہ کوئی تحریر نہیں لکھی جا سکتی، کوئی پیر کوئی مرشد کچھ بھی نہیں کر سکتا اگر آپ خود ہی قدم نہیں اٹھائیں گے۔

اللہ تبارک و تعالی کا وعدہ ہے کہ میری طرف ایک قدم بڑھاؤ میں تمہاری طرف دس قدم بڑھاؤں گا، وہ ایک قدم ہی نہیں اٹھ پاتا کیونکہ خواہشوں اور ضروریات کا ایسا جال بن دیا گیا ہے اس کیپیٹلزم کے دور میں کہ انسان اِس میں جکڑ کر رہ گیا ہے، میرے خیال میں تو سب سے بڑی سازشی اِس دور کے انسان کے ساتھ یہی کی گئی ہے کہ اس کو دولت کے چکر میں رکھا جائے، اِس کی ضروریات کو اتنا بڑھا دیا جائے کہ وہ کچھ اور سوچ ہی نہ سکے، پہلا مقصد دولت کا حصول ٹھہرے۔

جب پرندہ اڑان چاہتا ہے تو وہ سامان نہیں اٹھایا کرتا، اِس اڑان کے لیے آپ کو سامان کم کرنا پڑے گا پھر ہی روح کا سفر ممکن ہے، روح کی اڑان ممکن ہے۔

آج کے صنم خانے میں دولت سے محبت، وجود کی لذت، مرتبے کی ارزو، طاقت کا حصول سر فہرست ہیں اور یہ صنم اپنے ساتھ اور نہ جانے کتنے صنم لیے آتے ہیں۔

خواہشات کا ایک ہنگام مچا ہے وجود میں، نصیحت کی بات کہاں سمجھ آئے گی، دین کو پارٹ ٹائم رکھ لیا گیا ہے، اِس طرح بات نہیں بنے گی، یہ آپ کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے، دین میں مکمل داخل ہونے کے لیے اور ایمان مکمل کرنے کے لیے، آپ کو ایک ایک کرکے یہ بت توڑنے پڑیں گے، دل کو کعبہ بنانا پڑے گا پھر ہی بات بنے گی، پھر ہی توحید سمجھ آئے گی، پھر ہی حقیقتوں کے ساتھ محبتیں عطا ہو سکتی ہیں۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ تم عبادت کی لذت کو اُس وقت تک محسوس نہیں کر سکتے جب تک کہ دنیا کی آرزو دل سے نہ نکلے، دنیا کی آرزو کو دل سے نکالنے کے لیے اِس صنم کدے میں جہاد کرنا پڑے گا، ایک ایک کرکے بتوں سے جان چھڑانی پڑے گی، پھر ہی محبت کا سفر شروع ہو سکتا ہے، اگر تم یہ نہیں کر سکتے تو پھر شریعت کے احکامات کو مان کر آہستہ آہستہ اختیاط کے ساتھ زندگی بسر کرتے جاؤ اور دعا کرو اللہ تعالی کے حضور کہ وہ عبادتیں اور ریاضتیں قبول فرمائے، جتنی بھی تم کر سکے اپنی زندگی میں۔

لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا ہاتھ پکڑ لیا جاتا ہے اور انہیں رفعتیں اور محبتیں عطا کر دی جاتی ہیں، اُن کا سفر کسی اور طرح کا ہو جاتا ہے، اُن کا سفر عام انسان کے سفر سے ہٹ کے ہے، اگر تم شوق رکھتے ہو کہ کہ اِس سفر کا مسافر ہوا جائے تو پھر لازم ہے کہ خواہشوں کے ہنگام سے نکلو، ہر چند کہ یہ ایک مشکل کام ہے، آج کی دنیا میں لیکن یہ ہو سکتا ہے یہ ممکن ہے آج بھی کچھ لوگ موجود ہیں جو کہ خواہشوں کے جال سے آزاد ہو چکے ہیں، آپ اُن میں بیٹھا کریں اُن کی باتیں سنا کریں، اُن کو دیکھا کریں، اُن سے محبت کیا کریں، یہ عطائیں اُسی وقت ممکن ہیں، جب آپ کا دل صنم پرستی سے باہر آ جائے۔

یہ صنم آپ کے درد شناس نہیں ہو سکتے، آپ کے غموں کو کنارہ نہیں عطا کر سکتے، آپ کو محبتوں تک نہیں پہنچنے دیں گے، چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ آہستہ آہستہ اِن سے چھٹکارا پانے کی کوشش کریں، اِن کی محبت دل سے نکالنے کی کوشش کریں پھر ہی بات بنے گی۔

حضرت واصف علی واصفؒ اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک روز اپنے دفتر کی میز پر بیٹھے تھے اور اُن کے قریبی ساتھی محترم خوشی محمد صاحب اُن کے پاس موجود تھے، آپ خوشی محمد صاحب سے گویا ہوئے اور اپنی میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ خوشی دیکھو تمہیں میری میز پر دنیا نظر آرہی ہے، خوشی محمد صاحب نے فرمایا سرکار نہیں بالکل نہیں۔

آپ کو بھی اپنی اپنی میزوں سے دنیا کو ہٹانا پڑے گا، اگر اِن پاک ہستیوں کا ہمسفر ہونا ہے۔

اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Check Also

Al Ayyala, Raqs e Fatah o Fakhar Aur Ghalat Fehmi Ka Shikar Saqafti Mazhar

By Toqeer Bhumla