Taleem Aur Tabahi
تعلیم اور تباہی

امریکا میں ہر سال تعلیم کے شعبے میں تحقیق سے متعلق درجنوں کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ یہ کتابیں بنیادی طور پر اساتذہ اور تعلیمی منتظمین کے لیے ہوتی ہیں لیکن والدین کو بھی ترغیب دی جاتی ہے کہ انھیں پڑھیں۔
میں نے گزشتہ ڈیڑھ سال میں ٹیچنگ کورس اور ماسٹرز، دونوں کے اسائنمنٹس کے لیے سو سے زیادہ ایسی کتابوں سے استفادہ کیا۔ ان کتابوں کے علاوہ متعدد ویب سائٹس بھی معلومات فراہم کرتی ہیں جبکہ درجنوں ادارے ایسے ہیں جو صرف کے ٹویلو یعنی کنڈرگارٹن سے 12ویں جماعت تک کے بچوں کی تعلیم کو بہتر بنانے سرگرم ہیں۔ امریکا کے ہائی اسکول 12ویں جماعت تک ہوتے ہیں۔
میں نے چند دن پہلے اپنی اسسٹنٹ پرنسپل کے مشورے پر ایک کتاب پڑھی جس کا عنوان مینجنگ ڈائیورس کلاس رومز ہے۔ اس میں پرائمری اسکولوں کے سات اساتذہ پانچ سال تک ایک پروجیکٹ کا حصہ رہے جس کے بعد انھوں نے اپنے نتائج مرتب کیے اور یہ کتاب چھپی۔ اس میں بتایا گیا کہ امریکا اور یورپ میں عمومی طور پر انڈیویجوئلسٹک کلچر ہے جبکہ ہسپانوی بچے کلیکٹوسٹک کلچر سے آتے ہیں۔ ٹیچر اور طالب علم کے کلچر میں فرق کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ٹیچرز کو طالب علم کے کلچر سے آگاہی حاصل کرکے اسی کے مطابق کلاس روم کا ماحول بنانا چاہیے۔
اس مثال کا مقصد یہ ہے کہ زندہ معاشروں میں مسلسل تحقیق جاری رہتی ہے کہ بچوں کی تعلیم میں دلچسپی کیسے بڑھائی جائے اور انھیں معاشرے کا بہتر فرد کیسے بنایا جائے۔
جناب سعید ابراہیم کی کتاب تعلیم اور تباہی امریکا میں چھپنے والی کتابوں سے اس اعتبار سے مختلف ہے کہ یہ یونیورسٹی ریسرچ کا نتیجہ نہیں۔ انھوں نے خود بھی یہ بات پیش لفظ میں لکھی ہے۔ لیکن پاکستان میں تعلیم کی صورتحال پر جو بھی تحقیقی کام ہوتے ہیں، ان کے نتائج سعید صاحب سے مختلف نہیں ہوسکتے۔ یہ کتاب بجائے خود ماہرین تعلیم کی تحقیق کا موضوع ہونی چاہیے۔
سعید ابراہیم کی شناخت آرٹسٹ کے طور پر کی جاتی ہے۔ میں انھیں اہم دانشور مانتا ہوں۔ وہ فیس بک پر ہلکے پھلکے انداز میں سماج کی بنت، خرابیوں، زوال اور اکثریت کی کج فہمی پر سوال اٹھاتے رہتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ سیکس اور سماج کے عنوان سے کتاب لکھ چکے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سکہ بند، سند یافتہ، تسلیم شدہ ماہر تعلیم نہیں ہیں۔ لیکن ان کی کتاب مستند ماہرین تعلیم کی کتابوں سے بڑھ کر مسئلے کی نشاندہی کرتی ہے۔
اس کتاب کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی زبان آسان ہے۔ اسکول کے بچے خود اسے پڑھ کر سمجھ سکتے ہیں۔ پھر اس کے موضوعات عام فہم اور مضامین مختصر ہیں۔ مزید یہ کہ سعید صاحب نے اپنے تجربات ساتھ درج کیے ہیں۔ جب کوئی لکھنے والا اپنی کہانی بیان کرتا ہے تو قاری کی تحریر میں دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔
اب تعلیم سے متعلق کتاب میں چند ابواب کے عنوان دیکھیں تاکہ معلوم ہوسکے، سعید صاحب نے مسائل کو جڑ سے پکڑا ہے:
تعلیم ہے کیا، زبان کیا ہے، خوشی کیا ہے، ٹیچر کو کیسا ہونا چاہیے، بچے کو کیسا گھر چاہیے، بچے کو کیسا اسکول چاہیے، ہمارا خاندانی نظام، ہمارے خواب، جنریشن گیپ، بچہ روبوٹ نہیں ہوتا، کوئی بچہ نالائق نہیں ہوتا۔
سچ یہ ہے کہ مغرب ان باتوں سے بہت آگے جاچکا ہے۔ لیکن ہمارا معاشرہ پسماندہ ہے۔ یہاں ان نکات پر بات کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ مثلاََ بڑے ہو کر کیا بننا ہے، یہ بات والدین بچے کے ذہن میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عامر خان کی فلم تھری ایڈیٹس یاد کیجے جس میں ایک نوجوان کیمرامین بننا چاہتا ہے لیکن اس کا باپ اسے انجینئر بنانے پر بضد ہوتا ہے۔ میرے والد نے بھی بچپن میں مجھے ڈاکٹر بننے کا خواب دکھایا تھا۔ انھوں نے ضد نہیں کی اور کرتے بھی تو میں باغی تھا۔ لیکن میرے کئی دوست ایسے ہیں جو والدین کی خواہش پر ڈاکٹر بن گئے اور اپنے پیشے سے نفرت کرتے ہیں۔
یہاں امریکا میں عجیب معاملہ دیکھا۔ میں نے کلاس روم میں خواہش ظاہر کی کہ تمام بچوں کو یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ کو ٹیچر سینئر تھیں۔ انھوں نے بعد میں کہا، طلبہ کو یونیورسٹی جانے کی راہ مت دکھائیں۔ ان میں کوئی آرٹسٹ ہوگا۔ کوئی ایتھلیٹ ہوگا۔ ممکن ہے کوئی کار مکینک بننے کی خواہش رکھتا ہو۔ ایسے بچوں کے لیے یونیورسٹی نہیں، اکیڈمی ہے۔ کلب ہیں۔ آپ اپنی خواہش بچوں پر مسلط نہ کریں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ امریکی نظام تعلیم کا یہ پہلو اس وقت تک مجھ پر آشکار نہیں تھا۔ کیا پاکستان میں مڈل یا اپر کلاس کا کوئی بچہ کار مکینک بننا چاہے تو والدین اس کی حوصلہ افزائی کریں گے؟
سعید صاحب نے بھی اپنا حال لکھا ہے۔ معاشرے کی عمومی صورتحال بیان کی ہے۔ مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں کردی۔ مسائل کے حل بھی بتائے ہیں۔ ان پر عمل کرکے گھر، اسکول اور سماج کو جوہری طور پر بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
آخر میں کتاب سے چند جملے دیکھیں:
"بچوں کو ٹیچر کی صورت میں ایک ہمدرد، ہنس مکھ، زندہ دل انسان درکار ہے۔ خوف سے بچے کو رٹے باز تو بنایا جاسکتا ہے مگر اس میں علم منتقل نہیں کیا جاسکتا۔
اگر ہمیں واقعی اپنے بچوں کو سدھایا ہوا جانور نہیں بنانا تو ہمیں تعلیم سے سخت گیری کے رویے کو ہمیشہ کے لیے خارج کرنا ہوگا۔ یاد رکھیے، خوف کے زور پر مسلط کیا گیا علم بظاہر کتنا ہی نافع کیوں نہ ہو، وہ بچے کی شخصیت میں نفسیاتی بگاڑ کے بیج ڈال دیتا ہے۔
ٹیچر کا کام محض یہ نہیں کہ وہ تعلیمی شیڈول کے مطابق نصاب بروقت ختم کروادے بلکہ اس سے زیادہ ضروری کام یہ ہے کہ وہ سلیبس کے ذریعے بچوں میں تنقیدی شعور کو بیدار کرے۔ بچوں کو مختلف طرح کے سوال اٹھانے پر مائل کرے۔ سبق پڑھاتے وقت بچوں کی حقیقی زندگی سے مثالیں شامل کرے بلکہ ان کی تلاش میں بچوں کو بھی شامل کرے"۔
امریکی ٹیچر سو فیصد ایسے ہی ہیں۔ یہاں ٹیچر کو تربیت دی جاتی ہے کہ بعض گھروں کا ماحول برا ہوتا ہے۔ آپ کی شخصیت ایسی ہونی چاہیے کہ طالب علم اپنے والدین سے زیادہ آپ پر اعتبار کرے۔ اس پر گھر میں تشدد ہو تو وہ آپ کو بتاسکے۔ پاکستان میں کتنے ٹیچر ایسے ہوں گے، جنھیں طلبہ کا ایسا اعتبار حاصل ہوگا؟