Kuch Bhi Nahi, Magar Sab Kuch Tha
کچھ بھی نہیں، مگر سب کچھ تھا

زندگی ایک ایسا سفر ہے جس میں انسان وقت کے بہاؤ میں خود کو بھول جاتا ہے۔ ہم سب کسی نہ کسی مرحلے پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے جو چاہا، جو سوچا، جو خواب دیکھے، وہ سب ادھورے رہ گئے۔ بہت سے لمحے ایسے آتے ہیں جب ہمیں لگتا ہے کہ ہماری دعائیں، ہماری تمنائیں اور ہماری محبت سب بے اثر ہوگئی ہیں۔ یہ تحریر ایک ایسے ہی احساس کا بیان ہے، جس میں دکھ ہے، بے بسی ہے اور ایک گہری خاموشی ہے۔ ایسی خاموشی جو بہت کچھ کہہ جاتی ہے۔
اکثر زندگی میں ایسے رشتے بنتے ہیں جنہیں ہم اپنی دنیا سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اگر وہ رشتہ رہا، تو سب کچھ ٹھیک ہے، اگر وہ ساتھ رہا، تو دنیا جنت ہے۔ مگر جب وہی رشتہ بدلنے لگتا ہے، وہی شخص اجنبی ہو جاتا ہے، تو دل ایک گہری چوٹ کھاتا ہے۔ ابتدا میں انسان سمجھتا ہے کہ اگر وہ شخص بدل گیا تو ہم جی نہ سکیں گے، سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں اس تبدیلی کی عادت ہو جاتی ہے اور یہی وقت ہمیں بتاتا ہے کہ ہم جینے کے لیے کسی ایک شخص کے محتاج نہیں ہیں، ہم میں برداشت کی طاقت ہے، لیکن اس طاقت کو حاصل کرنے کی قیمت بہت بھاری ہوتی ہے۔ یہ وہ قیمت ہے جو دل چپ چاپ چکاتا ہے۔
جب ہم تنہا ہوتے ہیں، یا جب کوئی قریبی رشتہ ٹوٹتا ہے، تو ہم ماضی کو دہرانے لگتے ہیں۔ ایک ایک لمحہ، ایک ایک بات، ایک ایک منظر ذہن میں گھومنے لگتا ہے۔ دل پوچھتا ہے کہ کیا واقعی وہ سب کچھ حقیقت تھا؟ کیا ہم نے واقعی وہ سب کچھ جیا جسے ہم نے محبت، دوستی، وفا کا نام دیا؟ اور پھر کہیں نہ کہیں دل سے آواز آتی ہے کہ شاید وہ سب کچھ صرف ہمارا وہم تھا، ہماری خواہش تھی، حقیقت کچھ اور تھی۔
بعض اوقات زندگی کی سب سے بڑی خاموشیاں وہ ہوتی ہیں جو ہم بولتے نہیں۔ وہ شکوے، وہ دکھ، وہ شکایتیں جو ہم کسی سے کہہ نہیں پاتے، وہی اندر ہی اندر ہمیں کھا جاتی ہیں۔ ہم کسی کو دکھانا نہیں چاہتے کہ ہمیں تکلیف ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ خود سمجھ جائے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ لوگ تب تک سمجھتے ہی نہیں جب تک ہم رو نہ پڑیں، چیخ نہ اٹھیں اور جب ہم یہ سب نہیں کرتے، تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ تکلیف وہی محسوس کرتا ہے جو خاموش رہتا ہے۔
انسان کی زندگی میں کچھ لوگ ایسے آتے ہیں جو ہمیں لگتا ہے کہ مختلف ہیں، خاص ہیں۔ ہم انہیں مثالی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ان کی باتیں، ان کا رویہ، ان کا ساتھ۔۔ سب کچھ ہمیں مکمل لگتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، وہ بھی عام لوگوں کی طرح نکلتے ہیں۔ وہی وعدہ خلافی، وہی غفلت، وہی خود غرضی۔ تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ غلطی ان کی نہیں، ہماری تھی۔ ہم نے انہیں وہ مقام دیا جس کے وہ اہل نہ تھے۔ ہم نے انہیں اپنے دل کا تاج بنایا اور انہوں نے اسے روند ڈالا۔
زندگی کی دوڑ میں جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وقت ہماری انگلیوں سے پھسل گیا۔ بچپن کی ہنسی، جوانی کے خواب، محبت کی چمک اور امید کی روشنی سب ماضی کا حصہ بن چکی ہوتی ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ کیا واقعی ہم نے اتنے سال گزار دیے؟ اور کیا حاصل ہوا؟ ہم نے جتنا سوچا، جتنا چاہا، اس کا کتنا حصہ ہمیں ملا؟ اور اکثر جواب ہوتا ہے: کچھ بھی نہیں۔
یہ "کچھ بھی نہیں" دراصل سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ وہ تجربہ ہے جو ہمیں انسان بناتا ہے۔ یہ وہ تلخ حقیقتیں ہیں جو ہمارے اندر بصیرت پیدا کرتی ہیں۔ جب ہماری دعائیں بے اثر لگنے لگتی ہیں، تو ہم سمجھتے ہیں کہ شاید ہم دعا کرنا ہی نہیں جانتے تھے۔ ہم نے بس خواہشات کا انبار لگا دیا، لیکن ان خواہشات میں خلوص اور سچائی کی کمی تھی۔ یا شاید وقت ہی ہمارا ساتھ نہ دے سکا۔
انسان کا دل دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے، ہونٹ حرکت کرتے ہیں، مگر جب دعا پوری نہیں ہوتی تو وہ دعا بے جان لگنے لگتی ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہم نے کیا کمی کی تھی؟ کیا ہماری آہ میں اثر نہ تھا؟ یا پھر تقدیر میں کچھ اور لکھا تھا؟ یہی سوالات ہماری راتوں کی نیند چھین لیتے ہیں۔ دل میں ایک خلاء پیدا ہو جاتا ہے، جسے ہم بھرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ہر کوشش ناکام ہوتی ہے۔
کبھی کبھی ہم کسی کے رویے سے اتنے دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اس کی ناراضگی کی وجہ تک یاد نہیں رہتی۔ وہ ساری باتیں جو کبھی دل کے قریب تھیں، وہ ایک دھند میں چھپ جاتی ہیں اور ہم بس حیرت میں رہ جاتے ہیں کہ آخر کیا ایسا ہوا جو اس رشتے کو ختم کر گیا؟ شاید وہ رشتہ اتنا مضبوط تھا ہی نہیں جتنا ہم سمجھتے تھے۔ یا شاید ہم ہی اکیلے اسے نبھاتے رہے اور دوسرا شخص صرف تماشائی تھا۔
جب ہم محبت کرتے ہیں تو ایثار، قربانی، وفا، سب کچھ خودبخود ہمارے اندر آ جاتا ہے۔ ہم کسی صلے کی تمنا نہیں کرتے، بس چاہتے ہیں کہ وہ تعلق باقی رہے۔ لیکن جب وہ تعلق ٹوٹتا ہے تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ شاید ہم ہی پاگل تھے، ہم ہی ایک خواب دیکھ رہے تھے۔ دوسرے کے لیے وہ رشتہ ایک لمحاتی تسکین تھا، ہمارے لیے زندگی کا مرکز۔
یہ تحریر صرف کسی ایک شخص کی کہانی نہیں، یہ ہم سب کی کہانی ہے۔ ہم سب زندگی میں ایسے مرحلے سے گزرتے ہیں جب ہمیں لگتا ہے کہ ہم نے جو کچھ سوچا، وہ حقیقت سے بہت دور تھا۔ ہم سب کسی نہ کسی مقام پر یہ سوچتے ہیں کہ جتنی کوشش کی، جتنی محنت کی، جتنی محبت دی، اس کا کوئی حاصل نہیں ہوا۔ مگر درحقیقت، ان ہی تجربات سے ہم سیکھتے ہیں، مضبوط ہوتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ خود کو کھو دیتے ہیں۔ ہم دوسروں کی خوشی، اُن کی ترجیحات، اُن کے خواب پورے کرنے میں لگ جاتے ہیں اور اپنا وجود پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ لیکن جب وہی لوگ ہمیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، تو ہم ایک سوال سے دوچار ہوتے ہیں: ہم نے اپنے لیے کیا کیا؟ اور جب جواب ملتا ہے "کچھ بھی نہیں" تو وہ لمحہ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔
زندگی کے اس سفر میں ہمیں یہ سیکھنا ہوتا ہے کہ تعلق نبھانا صرف ایک فریق کا کام نہیں۔ اگر دونوں طرف سے خلوص ہو، تو رشتہ بچتا ہے، ورنہ سب کچھ ختم ہو جاتا ہے اور جب ختم ہو جائے، تو وہ سارے جذبات، سارے وعدے، ساری یادیں بس ایک بوجھ بن جاتی ہیں اور پھر ہم اُس بوجھ کو لے کر زندگی گزارنے لگتے ہیں، ایک ایسی زندگی جو بظاہر مکمل نظر آتی ہے، لیکن اندر سے کھوکھلی ہوتی ہے۔
لیکن یہی کھوکھلا پن ہمیں وہ گہرائی دیتا ہے جو ہمیں دوسروں سے ممتاز بناتی ہے۔ ہم جب گرتے ہیں، تب ہی اٹھنا سیکھتے ہیں۔ جب ہمارا دل ٹوٹتا ہے، تب ہی ہمیں اپنے آپ سے پیار کرنا آتا ہے اور جب ہمیں کوئی چھوڑ جاتا ہے، تب ہی ہمیں اپنی ذات کی اہمیت سمجھ آتی ہے۔ یہی تجربات ہمیں انسان بناتے ہیں، ہمیں نرمی سکھاتے ہیں، ہمیں دوسروں کے دکھ کو محسوس کرنے کی طاقت دیتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ کچھ لوگ ہماری زندگی میں صرف سبق دینے کے لیے آتے ہیں۔ وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ کیسے خود پر بھروسا کیا جائے، کیسے اکیلے چلا جائے اور کیسے اپنے درد کو لفظوں میں ڈھالا جائے۔ وہ لوگ چلے جاتے ہیں، مگر ان کے دیے ہوئے سبق عمر بھر ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔
آخر میں، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ "کچھ بھی نہیں" دراصل "سب کچھ" ہوتا ہے۔ کیونکہ انہی خالی لمحوں میں ہم نے سب سے زیادہ سیکھا، انہی خاموشیوں میں ہم نے سب سے زیادہ محسوس کیا اور انہی ٹوٹے خوابوں میں ہم نے نئے خواب دیکھنا شروع کیے۔
یہ تحریر اُن سب کے لیے ہے جنہوں نے کبھی کسی کو سچے دل سے چاہا، جو خاموش رہے مگر ٹوٹے، جو کسی کے بدلنے پر بکھر گئے، جو دعاؤں کی قبولیت کے منتظر رہے اور آخر میں صرف یہ کہہ سکے:
"کچھ بھی نہیں، "
لیکن وہ جانتے تھے۔
کہ وہی "کچھ بھی نہیں"۔
درحقیقت۔
"سب کچھ تھا"۔