The Art Of Asking
دی آرٹ آف آسکنگ
علامہ ابن جوزیؒ لکھتے ہیں کہ مجھے یہ روایت پہنچی کہ ایک تاجر خراسان سے چلا اور بغداد پہنچا۔ وہ حج کے لیے مکہ مکرمہ جانا چاہتا تھا، اس نے سفر حج کی تیاری مکمل کر لی تو زادِ راہ کے علاوہ اس کے پاس ایک ہزار دینار فالتو بچ گئے۔ اس نے سوچا اگر میں یہ ہزار دینار اپنے پاس رکھوں تو یہ مناسب نہیں کیونکہ راستے میں کوئی خطرہ بھی پیش آسکتا ہے، پھر اس نے سوچا کہ اگر میں یہ رقم کسی کے پاس امانت رکھوں تو یہ تدبیر بھی خطرے سے خالی نہیں، کہیں وہ میری امانت کا انکار ہی نہ کر دے۔
چنانچہ خراسانی تاجر ایک صحرا میں گیا، وہاں ارنڈ کے ایک درخت کے پاس گڑھا کھودا اور اس میں یہ ہزار دینار چھپا دیے۔ وہ اکیلا تھا، اس لیے اسے اس وقت کوئی نہیں دیکھ رہا تھا پھر وہ حج کے لیے بغداد سے مکہ مکرمہ روانہ ہوگیا۔ حج کے بعد بغداد واپس آیا تو ارنڈ کے درخت کے پاس گیا تا کہ گڑھے سے اپنے ایک ہزار دینار نکال لے مگر اسے یہ دیکھ کر سخت حیرانی اور پریشانی ہوئی کہ اس کا مال وہاں سے غائب ہے۔ اسے سخت صدمہ پہنچا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
خراسانی تاجر جو اب خراسانی حاجی بن چکا تھا، زور زور سے فریاد کر رہا تھا اور روئے جارہا تھا۔ کوئی اس سے رونے کا سبب پوچھتا تو وہ صرف یہ کہہ دیتا تھا کہ زمین نے میرا مال چوری کر لیا ہے، لوگ اس کی یہ بات سن کر ہنستے بھی تھے اور افسوس کا اظہار بھی کرتے تھے۔ جب اس کا واویلا حد سے بڑھا تو لوگوں نے اسے مشورہ دیا تم عضد الدولہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا مقدمہ پیش کرو، شاید کوئی حل نکل آئے کیونکہ عضد الدولہ بڑا دور اندیش ہے اور ایسے مواقع پر پیچیدہ گتھیاں سلجھانے کی تدبیر نکال لیتا ہے۔
خراسانی تاجر نے کہا أَوَ يَعُلَمُ الُغَيُبَ؟
کیا وہ غیب کا علم رکھتا ہے؟
لوگوں نے کہا: فضول سوال کیوں کرتے ہو؟ اگر تم عضد الدولہ کے روبرو یہ مقدمہ پیش کر دو تو تمھارا حرج ہی کیا ہے؟ ممکن ہے وہ کوئی حل نکال دے۔
چنانچہ لوگوں کے مشورے کے مطابق وہ عضد الدولہ کی خدمت میں پہنچا اور اپنا مقدمہ پیش کیا۔ عضد الدولہ نے اس کا مقدمہ بغور سنا اور کچھ دیر غور و فکرکے بعد شہر کے طبیبوں کو حاضر ہونے کا حکم دیا۔ اطباء حاضر ہو گئے تو اس نے ان سے دریافت کیا، کیا اس سال تم میں سے کسی نے ارنڈ کی جڑوں سے کسی کا علاج کیا ہے؟"
ایک طبیب بولا: جی ہاں! میں نے فلاں آدمی کا علاج کیا ہے۔ وہ آپ کے خاص لوگوں میں سے ہے۔
عضد الدولہ نے حکم دیا: اُسے ابھی اور اسی وقت میرے پاس حاضر کیا جائے۔
جب وہ شخص عضد الدولہ کے پاس حاضر ہوا تو اس نے پوچھا: کیا تو نے اس سال ارنڈ کی جڑ سے علاج کرایا ہے؟
اس نے جواب دیا: ہاں۔
عضد الدولہ نے پوچھا: یہ جڑ کون لے کر آیا تھا؟
جواب دیا: میرا فلاں خادم۔
اب خادم کو طلب کیا گیا اور وہ حاضر ہوگیا۔
عضد الدولہ خادم سے مخاطب ہوا: تو ارنڈ کی جڑ کہاں سے لایا تھا؟
خادم نے جواب دیا: فلاں جگہ سے۔
عضد الدولہ نے کہا: "اس خراسانی کو اپنے ساتھ لے جا اور وہ جگہ دکھا جہاں سے تو نے وہ جڑ نکالی تھی"۔
خادم خراسانی تاجر کو اپنے ساتھ لے گیا اور وہ درخت دکھلایا۔ خراسانی نے وہ درخت فوراََ پہچان لیا اور کہنے لگا: یہی وہ درخت ہے جہاں میں نے ایک ہزار دینار چھپا رکھے تھے۔
جب یہ دونوں عضد الدولہ کے پاس واپس آئے تو اس نے خادم سے کہا "چلو! اس کا مال واپس کرو خادم پس و پیش کرنے لگا، عضدولہ نے مال واپس نہ کرنے کی صورت میں اسے سخت سزا کی دھمکی دی تو وہ تیزی سے اپنے گھر گیا اور ایک ہزار دینار لا کر خراسانی تاجر کے حوالے کر دیے۔
محترم دوستو اندازہ کیجیے کہ عضد الدولہ کتنا باریک بین تھا اور اس نے کیسی دور اندیشی سے ایک دور افتادہ مسافر کا مال اچکنے والے کا سراغ لگالیا۔
خراسانی تاجر کی مثال یہ سکھاتی ہے کہ مشکل وقت میں صبر کرنا اور مدد کے لیے مناسب جگہ رجوع کرنا ضروری ہے۔ حوصلے اور ثابت قدمی سے مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔
اس آرٹ کو 2025 میں ہم "دی آرٹ آف آسکنگ" کے نام سے جانتے ہیں۔ سوال کرنے کا ہنر ہمارے علم میں اضافہ کرتا ہے، تعلقات کو مضبوط کرتا ہے اور مسائل کے حل کے نئے راستے کھولتا ہے۔
یہ آرٹ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم درست وقت پر، درست طریقے سے اور درست لوگوں سے کیسے سوال کریں تاکہ نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگیوں میں بھی بہتری لا سکیں۔ "دی آرٹ آف آسکنگ" درحقیقت ایک پل ہے جو ہمیں ناواقفیت سے واقفیت تک اور شک سے یقین تک لے جاتا ہے۔
(یہ عضد الدولہ بو یہی ہے۔ اس کا نام فنا خسرو بن حسن ہے۔ اس کا لقب عضد الدولہ ہے۔ اس کی ولادت 324 ہجری میں اور وفات بغداد میں 372 ہجری میں ہوئی۔ سلطنت عباسیہ کے عہد میں عراق پر قبضہ کرنے والوں میں اس کا بھی نام آتا ہے۔ وہ ایران، موصل اور پھر بلاد جزیرہ کا حاکم رہا۔ یہی وہ پہلا شخص ہے جسے اسلامی تاریخ میں شہنشاہ کا لقب ملا۔ یہ بہت رعب و دبدبے والا حکمران تھا۔ تعمیراتی کاموں کا بڑا شوقین تھا۔ اس نے اپنے نام سے ایک بڑا ہسپتال بنوایا تھا۔ بڑی بڑی بلڈنگیں اور پل تعمیر کرائے تھے اور مدینہ منورہ کے اردگرد ایک مضبوط دیوار بھی بنوائی تھی۔)