Enha Di Te Main
اینہاں دی تے میں

بلوچستان میں سرمچاروں کی کارروائیاں چل رہیں ہیں۔ بالائی علاقوں میں حافظ گل بہادر گروپ ٹی ٹی پی کی کارروائیاں چل رہیں ہیں۔ پنجاب اور وفاق میں پِیکا ایکٹ چل رہا ہے۔ سندھ میں انڈس کینال رولا چل رہا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب کراچی میں آئے روز لوگوں کو کچلتے ڈمپر چل رہے ہیں۔ ریاست کے اوپر آئی ایم ایف چل رہا ہے۔ باقی تو سب خیر ہے۔
اس ملک میں خیر کا معیار وہی ہے جو حضرت جون ایلیا فرما گئے ہیں۔
آج کا دن بھی عیش سے گزرا
سر سے پا تک بدن سلامت ہے
کل سے میں بس اسی طرح کا الٹا سیدھا سوچ رہا ہوں اور میری طرح کا کوئی بھی شخص اسی طرح سوچنے اور محسوس کرنے لگتا ہے، جب اس کا ذہن تھکنے لگے۔ بوڑھا ہونے کے لیے بوڑھا ہونا ضروری نہیں۔ بالکل ایسے جیسے ایک چھ فٹا باڈی بلڈر ہونا اس بات کی ضمانت نہیں کہ اعصاب بھی اتنے ہی مضبوط ہوں گے۔ وقت اور حالات سازگار نہ ہوں تو ان کا مسلسل ناسازگار ہونا کسی کو بھی قبل از وقت بڑھاپے، جانے انجانے خوف اور اعصابی کمزوری میں مبتلا کرسکتا ہے۔ کسی بھی فرد کو، کسی بھی سماج کو، کسی بھی قوم کو، کسی بھی ملک کو۔
سنہ 1947 میں کیا کیا نہ ہوا۔ کیسی بے سروسامانی تھی، کیسی کیسی بلند و بالا رکاوٹیں تھیں۔ مگر خود پر یقین کا نشہ تمام تکالیف سے بڑا تھا۔ یہ یقین کہ کل کا سورج آج کے سورج سے بہتر ہوگا۔ کرسی نہیں تو کیا ہوا، بیٹھنے کو پتھر تو ہے۔ میز نہیں تو کوئی بات نہیں درخت کے تنے کا ٹکڑا ہی میز ہے۔ دوا نہیں تو کون سی قیامت آ گئی، زخم دھونے کے لیے پانی تو ہے۔ الف ب ت پڑھانے والے ہیں تو اسکول بھی بنتے رہیں گے۔ گھر نہیں تو کیا غم کم از کم زمین تو ہے۔ آج جھونپڑی ہے مگر اپنی ہے کل یہی جھونپڑی پکا مکان بن جائے گی۔
نیا نیا چلنے والا بچہ ہو کہ ملک، چلتے چلتے تھکنا کہاں آتا ہے۔ اس میں تو بجلی بھری ہوتی ہے، وہ تو چھلاوا ہوتا ہے۔ یہ نیچے بیٹھنے کی عمر تھوڑی ہے۔ آرام کرنے کے لیے تو پوری زندگی ہے۔ ٹھیک ہے کسی فیض احمد فیض نے "یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر" لکھ دیا ہوگا لیکن یہ شاعر لوگ تو جانے کیا الٹا سیدھا سوچتے رہتے ہیں۔
نئے نئے ملک کے لوگ بھی نئے نئے مگر شدید حساس تھے۔ ذرا سی زیادتی پر بھی سڑکوں پر نکل آتے تھے۔ منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہو جاتی تھی۔ "تمہارے باپ کی جاگیر نہیں ہے یہ ملک۔۔ انگریز کی طرح ڈنڈا چلایا تو انگریز والا حال بنا دیں گے۔۔ طلبا سیاست پر پابندی برداشت نہیں ہوگی۔۔ لو مارو گولی۔۔ صرف اردو نہیں بنگالی بھی پڑھاؤ۔ آمریت مردہ باد۔ تمہاری ہتھکڑیاں ختم ہو جائیں گی ہمارے ہاتھ ختم نہیں ہوں گے۔۔ ایوب کتا ہائے ہائے۔۔ " ایسا کہتے تھے۔ "قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے عَلم اور نکلیں گے عشاق کے قافلے"۔ ایسا کہتے تھے۔
ابا مرحوم سناتے تھے کہ سنہ 65 میں گھر کی چھتوں پر بھارتی اور پاکستانی فضائیہ کی لڑائی دیکھنے کے لیے لوگ ایسے چڑھ جاتے تھے جیسے بم نہیں پھول برسیں گے۔ بلیک آؤٹ؟ کون سا بلیک آؤٹ؟ فضائی بمباری سے بچاؤ کے لیے بینکرز؟ کون سے بینکرز۔۔ اوئے اینہاں دی تے میں۔۔ کیا کہا، اسرائیل نے عربوں پر حملہ کر دیا؟ اوئے اینہاں دی تے میں۔۔ یہ جلوس کیا نعرے لگا رہا ہے؟ جی یہ جلوس ویتنام زندہ باد، امریکا مردہ باد کے نعرے لگا رہا ہے۔۔ اوئے امریکا دی تے میں۔۔
تب تک اس قوم کے اعصاب اتنے مضبوط تھے کہ 1971 بھی پی گئی۔ کیا ہوا جو ملک ٹوٹا خواب تو نہیں ٹوٹا۔ اب اسی کو بنائیں گے، پچھلی غلطیاں درست کریں گے۔ ٹیڑھی دیوار سیدھی کریں گے۔ نیا پاکستان کا نعرہ پرانا نعرہ ہے۔ یہ تب لگا تھا۔
اور پھر نیا پاکستان بنانے والے ایوب کے لئے تو ایک ہی حبیب جالب تھا لیکن اس نے کچھ ایسے ہاتھ دکھائے کہ جالبوں کی پوری فصل اگ آئی۔ صرف ایک فراز تھوڑا تھا نظم "محاصرہ" لکھنے والا، مزاحمتی شاعری کے کھیت میں پوری فصل اُگ آئی تھی۔
غنیمِ شہر پر تازہ وحی کے ساتھ
امریکی خدا نے اک نیا جبریل بھیجا ہے
اور پھر اعصاب و جسم بوڑھا ہونے لگا۔ بوڑھا ہونے کے لیے بوڑھا ہونا ضروری تو نہیں۔ حالات کے مسلسل کوڑے پڑتے رہیں تو پہلوان کی پیٹھ بھی چھالا ہو جاتی ہے۔ کیا ولولے والے لوگ تھے ہم بھی۔۔
اور آج بار بار اس تاتاری سپاہی کا قصہ یاد آتا ہے جس نے اپنے سالار ہلاکو خان کے حکم پر اہل بغداد کو ایک قطار میں بٹھا کر یہاں سے وہاں تک سر قلم کرنا شروع کر دیئے۔ بیچ قطار تک پہنچتے پہنچتے تاتاری کی تلوار کند ہوگئی۔ کہنے لگا "میں نئی تلوار لاتا ہوں خبردار کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلے" اور کسی نے جنبش کجا اُف تک نہیں کی۔

