Shukria
شکریہ

انگریزی مزاح نگار جارج برنارڈشا عظیم ادیب تو تھے ہی، بلا کے خود پرست بھی تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ میری تحریر کا ایک ایک لفظ ایک ایک پونڈ قیمت رکھتا ہے۔ کسی ایک صاحب نے ازراہ مذاق انھیں ایک پونڈ رقم منی آرڈر سے بھیجی اور لکھا کہ یہ لیجیے ایک پونڈ حاضر ہے۔ براہ کرم اپنا ایک عدد قیمتی لفظ عنایت فرما دیجیے برنارڈشا نے جواب میں واقعی ایک لفظ ارسال کیا اور وہ تھا " شکریہ "۔
ہمارے اباجی کہتے تھے کہ دنیا میں لوگوں کے دل موہ لینے کا سب سے بڑا لفظ "شکریہ" ہوتا ہے "شکریہ" ایک ایسا لفظ ہے جسے صرف ہر انسان کو ہی نہیں بلکہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی ذات مبارک کو بھی بہت پسند ہے۔ اباجی کہا کرتے تھے کہ میرا بس چلے تو میں "شکریہ" ادا کرنے کو قانونی حیثیت دے دوں کیونکہ "شکریہ"کے لفظ کا استعمال ہماری خاندانی تربیت کا بھی عکاس ہوتا ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ "شکریہ" ادا کرنے کے لیے صرف الفاظ کافی نہیں ہوتے بلکہ آپکا رویہ اور ادائیگی کا طریقہ کار بھی ضروری ہوتا ہے شکریے کے لفظ کے ساتھ اظہار تشکر بھی بڑے معنی رکھتا ہے۔ زبان سے اس لفظ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ آپ جسم کے ہر ہر عضو سے اظہار تشکر جھلکتا نظر آنا چاہیے۔
بعض اوقات تو اس لفظ کی ادائیگی بھی کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی آپ کے جسمانی تاثرات ہی "شکریے" کے لیے کافی ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک لفظ "شکریہ" ہماری ہار کو فتح میں بدل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور میں نے ہر کامیاب انسان کو شکر گزار پایا ہے۔ اباجی کی عادت تھی کہ کوئی ہمسایہ کچھ بھجواتا تو ہم سے پوچھتے تم نے ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ کسی مزدور کو اسکی مزدوری کی ادائیگی کے بعد شکریہ ادا کرنا نہ بھولتے۔ کہتے تھے کہ جو انسان کا شکرگزار نہیں ہوتا وہ اپنے رب کا بھی شکر گزار نہیں ہو سکتا۔ "شکریہ" کا لفظ ضابطے کی کاروائی نہیں ہونا چاہیے بلکہ آپ کی دل ترجمانی ہونی چاہیے۔
ہمارے استاد شاہ محمد مرحوم کہا کرتے تھے۔ شکریہ" ادا کرنے کے لیے یہ لفظ کہنا ہی کافی نہیں ہوتا اس لفظ کی ادائیگی تو بغیر بولے بھی ہو سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ الفاظ کے بغیر بھی بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ بسا اوقات آپ کا چہرہ، آنکھیں اور آپ کا جسم اس لفظ کی ادائیگی کے بغیر ہی مقصد کو بامعنی بنا دیتا ہے۔ ایک نرم مسکراہٹ یا سر ہلا دینا ہی سننے والے پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ یہ لفظ اگر ہمدردی کے جذبات میں ڈوب کر بولا جائے تو مزید پراثر ہو جاتا ہے۔ آپکے لہجے کا مٹھاس آواز کا اتار چڑھاؤ اور دلکش انداز اس لفظ میں جادوئی تاثیر پیداکر دیتا ہے۔ اس لفظ کی ادائیگی کے وقت آپکی عاجزی اور انکساری بھی کمال رکھتی ہے۔ "بروکن ریکارڈ ٹیکنیک" بھی ایک بڑا کارآمد طریقہ ہے جو آپ کو بتاتا ہے کہ کب خاموش رہنا ہے اور کب اس لفظ کو ادا کرنا ہے اور کتنی مرتبہ بولنا ہے۔ آخری اور اہم بات آپکی جذباتی ذہانت ہوتی ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو آپ کے کسی بھی لفظ میں کسی بھی لمحے جان ڈال دیتی ہے۔
"شکریہ" بظاہر ایک بہت چھوٹا سا لفظ دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے اثرات بہت گہرئے اور دور رس ہوتے ہیں۔ روزمرہ زندگی میں اس کا استعمال نہ صرف دوسروں کے لیے خوشگوار احساس پیدا کرتا ہے بلکہ باہمی تعلقات کو بھی بہتر اور مضبوط بنائے رکھتا ہے۔ گویا شکریہ ادا کرنا نہ صرف ہمارئے سماجی آداب کا حصہ ہے بلکہ اس کا استعمال ہماری شخصیت کو نکھارنے اور دوسروں کے دل جیتنے کا بھی بہترین ذریعہ ہوتا ہے۔ "شکریہ" محض ایک رسمی جملہ نہیں بلکہ ایک ایسی خوبی ہے جو زندگی میں خوشی، کامیابی اور بہتر تعلقات کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہ انسان کے دل میں مثبت جذبات پیدا کرتا ہے اور دوسروں کے دل جیتنے کا سبب بنتا ہے اور مجموعی طور پر ایک اچھے اور مہذب معاشرئے کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
"شکریہ" کہنا جہاں دوسروں کے لیے خوشی کا باعث بنتا ہے وہیں یہ شکریہ کہنے والے کی خود اعتمادی کا مظہر بھی ہوتا ہے۔ جو رشتوں اور تعلقات میں محبت اور ہم آہنگی کو بڑھاتا ہے۔ "شکریہ" صرف انفرادی طور پر افرا د کی جانب سے ہی نہیں بلکہ بطور قوم اور بطور ملک اجتماعی طور پر بھی ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ اس "شکریہ"کے لفظ ادا کرنے سے آپکی قدر وقیمت گھٹتی نہیں بلکہ بڑھتی ہے۔
"شکریہ" کہنا نہ صرف ایک معاشرتی اور سماجی ادب کا ترجمان ہے بلکہ اس کے انسانی نفسیات پر بڑے گہرے اور مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جدید ریسرچ کے مطابق یہ لفظ ذہنی، جذباتی اور جسمانی صحت کے لیے اکسیر کا کام کرتا ہے۔ یہ وہ جادوئی لفظ ہے جسے کہہ کر اور سن کر خوشی کا احساس ہوتا ہے اور زندگی میں عدم اطمینان اور بے چینی کا احساس کم ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ "شکریہ" کہنا ہمارے دماغ میں ڈوپامین اور سیروٹونن جیسے خوشی کے ہارمون پیدا کرتا ہے جو ذہنی سکون اور دلی اطمینان کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ بظاہر معمولی سا لفظ انسانی ڈپریشن، اینزائٹی اور اسڑیس کو کم کرتا ہے۔
جب ہم اپنی زندگی میں مثبت پہلوں پر توجہ دیتے ہیں تو دوسروں کی مہربانیوں کو تسلیم کرتے ہیں اور ہمارے منفی خیالات کم ہونے لگتے ہیں جو ذہنی سکون کا باعث بنتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق اگر ہم سونے سے قبل ان چیزوں کے بارے میں سوچیں جن کے لیے ہم شکرگزار ہوتے ہیں تو نیند کا معیار بہتر ہو جاتا ہے۔ مثبت خیالات نیند میں خلل ڈالنے والے منفی خیالات کی جگہ لے کر زیادہ پر سکون نیند کی جانب لے جاتے ہیں۔ شکر گزار افراد اخلاقی اور جذباتی طور پر زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ وہ مشکلات کو زیادہ صبر اور تحمل کے ساتھ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ "شکریہ" کہنے کی عادت زندگی کو مجموعی طور پر بہتر بناتی ہے۔ یہ ایک ایسے مثبت طرز فکر کو فروغ دیتی ہے جس سے انسان زیادہ متحرک، پرامید اور خوشحال محسوس کرتا ہے۔
"شکریہ" ایک ایسا جادوئی لفظ ہے جو انسان کی نفسیات، جذبات اور صحت پر ہمیشہ مثبت اثر ڈالتا ہے۔ یہ خوشی، ذہنی سکون، رشتوں اور تعلقات کی مضبوطی اور زندگی کے مجموعی معیار میں بہتری لانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ "شکریہ" کا یہ لفظ شکرگزاری کی دلیل اور اس کا اظہار محبت (ٹوکن آف لو) ہوتا ہے جو درحقیقت ایک کامیاب اور خوشحال زندگی گزارنے کا راز ہوتا ہے۔ "شکریہ" ادا کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ نے کسی کے احسان کی قیمت چکا دی ہے بلکہ "شکریہ" کا مطلب ہے کہ آپ کو کسی کے احسان کا احساس ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
"شکریہ" ادا کرنا تمام انبیاء کرام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے۔ تمام انبیاءؑ نے اپنی زندگیوں میں شکر گزاری کا عملی نمونہ مختلف موقعہ پر مختلف طریقوں سے "شکریہ" ادا کرکے کیا ہے۔ حضرت نوحؑ اور حضرت ابراہیمؑ کو اللہ تعالیٰ نے "شاکرا لا نعمہ" یعنی "اپنے رب کی نعمتوں کا شکر گزار" قرار دیا جو ان کی شکرگزاری کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی شکر گزاری کو پسند فرمایا اور انکے درجات بلند فرمائے۔ حضرت سلیمانؑ کو بادشاہت اور نعمتیں عطا فرمائیں تو انہوں نے دعا کی اور کہا "اے میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں" حضرت موسیٰؑ کو اللہ تعالیٰ نے یاد دلایا "وکنت من الشاکرین " " اور تم شکر گزار وں میں سے تھے" جبکہ ہمارے نبی پاک ﷺ کا طرز زندگی مکمل طور پر شکرگزاری کا عملی نمونہ تھا۔
آپﷺ راتوں کو قیام فرماتے اور جب حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ اتنی کیوں؟ تو ارشاد فرمایا "افلا اکون عبدا شکورا " کیا میں شکرگزار بندہ نہ بنو (بخار ی) تمام انبیاء کی تعلیمات یہی ہیں کہ اللہ کی نعمتوں کو ضائع نہ کرو بلکہ ان کا شکر ادا کرو۔ انہوں نے مشکلات میں صبر اور آسانیوں میں شکر گزاری کا درس دیا ہے اور دوسروں کی مہربانیوں کا اعتراف اور شکرہ ادا کرنے کی تعلیم دی ہے کیونکہ جو انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہو سکتا (مسند احمد) انہوں نے ہمیں سکھایا کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا شخص مزید برکتیں حاصل کرتا ہے جبکہ ناشکری انسانی زوال کا باعث بنتی ہے۔ اگر زندگی میں حقیقی کامیابی کی خواہش ہے تو ہمیں انبیاء اور خصوصی رسول پاک ﷺ کی طرز زندگی کو اپنا کر ہر حال میں شکرگزار بننا ہوگا اور "شکریہ" کے ذریعہ اس کا اظہار بھی کرنا ہوگا۔ آئیں اپنی زندگی میں "شکریہ" کے لفظ کی ادائیگی کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے دل کی گہرائیوں سے ادا کریں۔

