Friday, 10 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. TS Eliot

TS Eliot

ٹی ایس ایلیٹ

ٹی ایس ایلیٹ جن کا پورا نام تھامس سٹرنز ایلیٹ تھا بیسویں صدی کے ایک عظیم انگریزی شاعر، نقاد، ڈرامہ نگار اور ادبی دنیا میں ماڈرن ازم کے ایک بڑے علمبردار تھے۔ ایلیٹ کی ادبی اور ذاتی تاریخ میں متعدد دلچسپ پہلو شامل ہیں جنہوں نے انہیں ایک منفرد شاعر اور ادیب بنا دیا۔ امریکہ سے تعلق رکھنے والے ٹی ایس ایلیٹ 26 ستمبر 1888 کو سینٹ لوئس، میسوری، امریکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک علمی خاندان سے تھا۔ ان کے والد ہنری ویئر ایلیٹ ایک بزنس مین تھے جبکہ ان کی والدہ شارلٹ شاعرہ تھیں۔ ایلیٹ کے گھر کا ماحول علمی اور ثقافتی تھاجس نے ان کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالا۔

ایلیٹ نے اپنی ابتدائی تعلیم سمتھ اکیڈمی میں حاصل کی اور اس کے بعد ہاورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ یونیورسٹی میں انہوں نے فلسفہ اور ادب میں دلچسپی لینا شروع کی۔ انہوں نے ہاورڈ یونیورسٹی میں فرانسیسی، جرمن اور سنسکرت زبان بھی سیکھی۔ بعد میں وہ سوربون، پیرس گئے اور پھر انہوں نے میگدلین کالج، آکسفورڈ میں بھی تعلیم حاصل کی۔ سن انیس سو چودہ میں ایلیٹ نے برطانیہ ہجرت کی اور 1915 میں ویوین ہی وڈ سے شادی کر لی۔ بعد ازاں ایلیٹ نے برطانوی شہریت حاصل کی اور اینگلیکن (انگلینڈ کی چرچ) مذہب کو بھی اپنایا۔ ایلیٹ کی شادی شدہ زندگی خوشگوار نہیں تھی۔ ازدواجی زندگی مشکلات کا شکار رہی اور بعد میں ویوین کی ذہنی بیماری کی وجہ سے دونوں الگ ہو گئے۔ یوں شادی کا بندھن بوجہ ویوین کی ابنارمل زندگی ٹوٹ گیا۔

ایلیٹ کی ادبی زندگی بیسویں صدی میں شامل ہوتی ہے۔ ان کی زندگی مذکورہ صدی میں ماڈرن ازم کے آغاز اور ترقی کا ایک اہم حصہ رہی ہے۔ ان کی شاعری اور تنقید نے مغربی ادب کو ایک نئی سمت دی۔ اپنی شاعری اور مضامین کے ذریعے ایلیٹ نے ماڈرن ازم کو بہت فروغ دیا۔ ان کے اشعار میں پیچیدہ موضوعات، تلمیحات اور ماضی کی ادبی روایات کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ ایلیٹ کی شاعری میں روایتی پن سے انحراف کیا گیا ہے۔ انہوں نے تنقید میں "غیر شخصی نظریہ پیش کیا۔ اس میں وہ شاعری کو ذاتی جذبات سے الگ کر ے دیکھتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ شاعر کو اپنی ذات سے بالاتر ہو کر شاعری کرنی چاہیے۔ ایلیٹ نہ صرف ایک شاعر بلکہ ایک عظیم نقاد بھی تھے۔

ان کی ایک مشہور نظم ڈیپارچر اینڈ ارآئول 1922 میں شائع ہوئی۔ یہ نظم جدید ادب کا ایک اہم سنگ میل مانی جاتی ہے۔ اس میں جنگ عظیم اول کے بعد کے دور کی مایوسی اور معاشرتی زوال کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ نظم میں مختلف ثقافتی، تاریخی اور ادبی تلمیحات شامل ہیں۔ ان کی دوسری نظم "دا لو سانگ آف جے الفریڈ پرفروک " 1915 میں شائع ہوئی۔ یہ ایلیٹ کی پہلی مشہور نظموں میں سے ایک ہے۔ اس میں ایک آدمی کی زندگی میں تنہائی، مایوسی اور خود شک کی عکاسی کی گئی ہے۔ "فور کوارٹرز" چار نظموں کا ایک مجموعہ ہے جن میں وقت، وجود اور روحانی تجربات کے موضوعات کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ ان کی آخری بڑی شاعری کا کام تھا اور 1943 میں شائع ہوا۔ "مرڈر ان دا کیتھڈرل" یہ ایک ڈرامہ ہے جو 1935 میں لکھا گیا اور کینٹربری کے آرچ بشپ تھامس بیکٹ کی کہانی پر مبنی ہے۔ اس میں مذہبی عقیدت اور قربانی کے موضوعات پر غور کیا گیا ہے۔ "ایش وینزڈے" نظم 1930 میں شائع ہوئی اور ایلیٹ کے مذہبی عقائد کی طرف جھکاؤ کی عکاسی کرتی ہے۔ اس نظم میں توبہ اور روحانی تجدید کے موضوعات پر بات کی گئی ہے۔

ایلیٹ نے ثقافتی اور ادبی تلمیحات کا استعمال اپنی شاعری میں خوب انداز میں کیا ہے۔ ان کی نظموں میں مختلف تاریخی، ادبی اور مذہبی حوالوں کا استعمال ہوتا ہے۔ ایلیٹ اکثر اپنی شاعری میں پیچیدہ موضوعات کو بیان کرتے ہیں۔ ایلیٹ نے جدید معاشرتی اور روحانی مسائل جیسے بے معنی زندگی، مایوسی اور عقیدے کا زوال پر توجہ دی۔ ان کی شاعری میں انسانی ذہن کی گہرائیوں اور نفسیاتی کشمکش کو بھی بیان کیا گیا ہے۔

ایلیٹ کا شماربیسویں صدی کے اہم ترین شاعروں اور نقادوں میں ہوتا ہے۔ ایلیٹ کے ادبی کاموں پر دیگر مصنفین، نقادوں اور دانشوروں نے گہرے اثرات ڈالنے والی آراء پیش کی ہیں۔ ان کی شاعری اور تنقید نے ادبی دنیا میں ایک نئی جہت پیدا کی اور مختلف نقطہ نظر سے ان کے کام کا جائزہ لیا گیا۔

کئی مصنفین اور نقادوں نے ایلیٹ کی شاعری کو ادبی عظمت کی معراج قرار دیا ہے۔ ایلیٹ کی نظم "دا ویسٹ لینڈ"کو جدید ادب کی ایک شاہکار تخلیق کہا جاتا ہے۔ معروف نقاد ایڈمنڈ ولسن نے ایلیٹ کی تخلیقات کو ماڈرن ازم کے اصولوں کا عکاس قرار دیا اور کہا کہ ان کے کام نے شاعری کی روایتی شکل کو توڑ کر ایک نئی جمالیاتی طرز دی۔

ایذرا پاؤنڈجو ایلیٹ کے قریبی ساتھی اور ان کے کام پر گہرا اثر رکھنے والے شاعر تھےنے ان کی شاعری کو "آزاد نظم" کی بہترین مثال قرار دیا۔ معروف نقاد ایف آر لیوس نے ایلیٹ کی تنقید کو ادبی تاریخ کے لیے ضروری قرار دیا اور کہا کہ اس نے ادبی جائزے کو ایک منظم اور سائنسی بنیاد فراہم کی۔ تاہم بعض نقادوں نے ایلیٹ کی تنقید پر اعتراض بھی کیا ہے۔ ہیرالڈ بلوم نے ایلیٹ کے کام کو "بہت زیادہ روایتی" قرار دیا اور کہا کہ ایلیٹ کی نظریں ماضی کی طرف زیادہ مرکوز تھیں جس سے ان کے نظریات بعض اوقات محدود لگتے ہیں۔ ایلیٹ کی تحریروں پر نسلی اور سماجی مسائل کے حوالے سے بھی بحث کی گئی ہے۔ ٹونی موریسن جیسے ادیبوں نے ایلیٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شاعری میں بعض اوقات نسلی تعصبات جھلکتے ہیں، خصوصاً ان کی ابتدائی نظموں میں۔

ٹی ایس ایلیٹ کے ادبی کاموں پر آراء متنوع اور بعض اوقات متضاد ہیں، لیکن ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ انہوں نے شاعری اور تنقید کو نہ صرف نئے زاویے دیے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔ ان پر مصنفین کی آراء ان کے ادبی قد کو مزید نمایاں کرتی ہیں۔ ٹی ایس ایلیٹ کا شمار 20ویں صدی کے عظیم شاعروں اور نقادوں میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری اور ادبی تنقید نے ماڈرن ازم کے نظریات کو فروغ دیا اور ان کے کام نے ادب کو ایک نیا رنگ دیا۔ ان کی زندگی اور ادبی کام آج بھی نئے پڑھنے والوں اور محققین کے لیے موضوع بحث ہیں اور ادب کی دنیا میں ان کا مقام نہایت بلند ہے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Kya Greater Israel Ka Mutalba Aur Khwahish Ghalat Hai?

By Hafiz Safwan