Ustad, Junoon Se Apnaya Gaya Muqadas Pesha Ya Mehaz Rozgar Ki Majboori
استاد، جنون سے اپنایا گیا مقدس پیشہ یا محض روزگار کی مجبوری

تدریس کا پیشہ ہمیشہ سے ہی ایک عظیم ذمہ داری سمجھا جاتا ہے، لیکن اسے اختیار کرنے والے افراد کے رویے اور نیت اس کے نتائج کو مکمل طور پر بدل دیتے ہیں۔ ایک استاد جو جذبے کے تحت پڑھاتا ہے، اس کے طلبہ علم کی روشنی سے منور ہوتے ہیں، جبکہ وہ استاد جو محض مجبوری کے تحت تدریس کر رہا ہوتا ہے، اس کے شاگرد بھی بے دلی سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک مخلص استاد کی کلاس میں سیکھنے کا ایک تخلیقی ماحول ہوتا ہے، جہاں سوالات کرنے، تجسس پیدا کرنے اور نئے خیالات پر غور کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس، ایک بے دلی سے پڑھانے والا استاد ایسی کلاس کا ماحول بنا دیتا ہے جہاں طلبہ صرف نصاب مکمل کرنے پر توجہ دیتے ہیں، نہ کوئی سوال کرتے ہیں اور نہ ہی سیکھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔
جب ایک استاد اپنے پیشے سے محبت کرتا ہے، تو وہ طلبہ میں بھی علم سے محبت پیدا کرتا ہے۔ وہ صرف کتابوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ عملی زندگی کے تجربات کو بھی اپنی تدریس کا حصہ بناتا ہے۔ ایسے استاد کے شاگرد ہمیشہ سیکھنے کے عمل میں دلچسپی لیتے ہیں اور اپنی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے محنت کرتے ہیں۔ ان کے اندر تخلیقی سوچ، منطقی استدلال اور مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، جو انہیں مستقبل میں ایک کامیاب انسان بننے میں مدد دیتی ہے۔ دوسری جانب، جب استاد خود ہی تدریس میں عدم دلچسپی رکھتا ہو، تو طلبہ بھی اس بے توجہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ محض رٹا سسٹم پر انحصار کرنے لگتے ہیں، ان کا مقصد صرف امتحان میں نمبر حاصل کرنا ہوتا ہے اور وہ حقیقی معنوں میں علم حاصل نہیں کر پاتے۔ نتیجتاً، وہ عملی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس وہ مہارت اور بصیرت نہیں ہوتی جو ایک متحرک اور باشعور شخص کے لیے ضروری ہے۔
ایک مخلص استاد کی موجودگی میں طلبہ اپنے اندر خود اعتمادی محسوس کرتے ہیں، وہ اپنے خیالات اور سوالات کو کھل کر بیان کرتے ہیں اور نئی چیزیں سیکھنے کے عمل کو انجوائے کرتے ہیں۔ وہ استاد اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، ان کی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے اور انہیں ان کے اندر موجود ٹیلنٹ کا احساس دلاتا ہے۔ اس کے برعکس، جو استاد صرف رسمی طور پر پڑھاتا ہے، وہ طلبہ کو دباؤ میں رکھتا ہے، انہیں کسی نئی چیز پر غور کرنے کی ترغیب نہیں دیتا اور اکثر ان کی حوصلہ شکنی کر دیتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے طلبہ میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے، وہ صرف دوسروں کی تقلید کرتے ہیں اور اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو استعمال نہیں کر پاتے۔
جذبے سے پڑھانے والا استاد اپنے شاگردوں کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرتا ہے۔ وہ ان کے مسائل کو سنتا ہے، ان کے سوالات کا جواب دیتا ہے اور ان کے مستقبل کے حوالے سے ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اس کے برعکس، ایک غیر دلچسپی رکھنے والا استاد محض اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے آتا ہے، طلبہ کے مسائل کو نظر انداز کرتا ہے، ان کے سوالات کا جواب دینے سے کتراتا ہے اور اکثر سختی کے ذریعے کلاس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نتیجتاً، اس کے شاگرد اس سے سوال کرنے سے گھبراتے ہیں، اپنی مشکلات کا اظہار نہیں کرتے اور ان کا سیکھنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔
جب استاد خود سیکھنے کا شوقین ہوتا ہے اور تحقیق و مطالعہ سے اپنے علم میں اضافہ کرتا ہے، تو وہ اپنے طلبہ کو بھی سیکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ وہ جدید تدریسی طریقے اپناتا ہے، نئی معلومات سے کلاس کو روشناس کراتا ہے اور طلبہ کو خود بھی تحقیق کرنے کی طرف مائل کرتا ہے۔ اس کے شاگرد صرف کتابی علم پر انحصار نہیں کرتے بلکہ وہ خود بھی چیزوں کو پرکھنے، تجربہ کرنے اور نئے نظریات پر کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف، جب استاد خود ہی تدریسی عمل میں دلچسپی نہیں لیتا، تو وہ پرانے اور غیر مؤثر طریقوں پر اکتفا کرتا ہے۔ وہ محض لیکچر دے کر اپنی ذمہ داری پوری کر لیتا ہے، جس سے طلبہ کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ وہ رٹے لگاتے ہیں، جوابات یاد کرتے ہیں اور جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں، تو خود کو ناکام محسوس کرتے ہیں۔
ایک جذبے سے بھرپور استاد کے شاگرد اچھے اخلاق، مثبت رویے اور سماجی شعور کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ اپنے علم کو دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں، اپنے ارد گرد کے لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور معاشرے میں بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ صرف کامیاب پیشہ ور نہیں بنتے بلکہ اچھے انسان بھی ثابت ہوتے ہیں۔ دوسری طرف، ایک بے دل استاد کے شاگرد علم کو محض ایک بوجھ سمجھتے ہیں، وہ اسے اپنی شخصیت میں شامل نہیں کرتے اور نہ ہی اسے دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے لیے تعلیم کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا اور نوکری لینا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں ترقی کا عمل سست ہو جاتا ہے۔
جذبے سے پڑھانے والے اساتذہ کی بدولت معاشرے میں باشعور، تخلیقی اور متحرک افراد پیدا ہوتے ہیں جو ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے شاگرد آگے چل کر بہترین سائنسدان، ڈاکٹر، انجینئر، ادیب اور مفکر بنتے ہیں، جو نئی ایجادات، تحقیقات اور علمی ترقی میں حصہ لیتے ہیں۔ اس کے برعکس، جب زیادہ تر اساتذہ صرف مجبوری میں تدریس کرتے ہیں، تو ایسے معاشرے میں عام طور پر ایسے افراد پیدا ہوتے ہیں جو محض تقلید پر یقین رکھتے ہیں، تخلیقی صلاحیتوں سے محروم ہوتے ہیں اور معاشرتی ترقی میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کر پاتے۔
یہ حقیقت ہے کہ استاد کا کردار کسی بھی قوم کی بنیاد رکھتا ہے۔ اگر استاد محض ایک نوکری کے طور پر تدریس کرے گا، تو اس کے نتائج وہی ہوں گے جو ایک عام ملازمت میں دیکھے جاتے ہیں: محض وقت گزارنا، دلچسپی کا فقدان اور نتائج کی غیر یقینی صورتحال۔ لیکن اگر استاد اپنے پیشے کو ایک مقدس مشن سمجھے، اسے اپنی زندگی کا مقصد بنائے اور اپنے شاگردوں کو بہترین طریقے سے سکھانے کی کوشش کرے، تو وہ ایک ایسی نسل تیار کر سکتا ہے جو دنیا میں مثبت تبدیلی لا سکتی ہے۔ یہی فرق ہے ایک مخلص استاد اور ایک مجبور استاد کے شاگردوں میں اور یہی فرق ہے ایک کامیاب اور ناکام تعلیمی نظام میں۔