Heart Lamp
ہارٹ لیمپ

لال روشنائی سے بھرے میرے دل کی نوک ٹوٹ چکی ہے۔ میرا منہ کچھ بولنے کے قابل نہیں۔ لکھنے کو حرف نہیں ہیں۔ میں صبر کے معنی نہیں جانتی۔ اگر تو یہ دنیا دوبارہ بنانا چاہے، مردوں اور عورتوں کو پھر سے پیدا کرنے کے لیے، تو ناتجربہ کار کمھار کی طرح مت بنائیو۔ زمین پر عورت بن کر آئیو، پربھو۔
ایک بار عورت بن کے دیکھ، او خدا۔
یہ بانو مشتاق کے ایک افسانے کے الفاظ ہیں۔ ان کی کہانیوں کے انگریزی ترجموں کی کتاب ہارٹ لیمپ کل شائع ہوگئی۔ امریکا میں پرنٹ میں دستیاب نہیں ہے اس لیے ایمیزون کنڈل پر پڑھ رہا ہوں۔
میں بانو مشتاق سے اس وقت واقف ہوا جب ان کی کہانی لال لنگی گزشتہ سال پیرس ریویو میں شائع ہوئی۔ تب ان کے بارے میں جاننے کی کھوج ہوئی۔ معلوم ہوا کہ کرناٹک سے تعلق ہے اور کنڑ زبان میں لکھتی ہیں۔ کسی زمانے میں اخبار اور ریڈیو میں کام کیا تھا۔ پھر وکالت کی۔ سماجی ناانصافیوں کے خلاف اور خاص طور پر عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں۔ اب 77 سال کی ہوچکی ہیں لیکن قلم جوان ہے۔
بانو مشتاق کا ایک ناول، مضامین کی ایک کتاب اور افسانوں کے چھ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ان کی ایک کہانی پر فلم بن چکی ہے۔ وہ شاعری بھی کرتی ہیں اور ایک مجموعہ کلام چھپ چکا ہے۔ ہارٹ لیمپ ہمیں اب دستیاب ہوئی ہے لیکن بکر انٹرنیشنل پرائز کے لیے پہلے ہی نامزد کردی گئی تھی۔
بانو مشتاق کی کہانیوں کو دیپا بھاستھی انگریزی میں ترجمہ کرتی ہیں۔ گزشتہ سال انھیں اس کام پر پین انگلش ٹرانسلیشن ایوارڈ دیا گیا۔ ہارٹ لیمپ میں انھوں نے بانو مشتاق پر تعارفی مضمون لکھا ہے جو خاصے کی شے ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بانو مشتاق کا تعلق ترقی پسند خاندان سے ہے اور انھوں نے عام مسلمانوں کی طرح اردو کے بجائے کنڑ زبان میں تعلیم حاصل کی۔ اسی لیے وہ اس زبان میں لکھتی ہیں ورنہ گھر پر دکنی زبان بولتی ہیں۔ دیپا کے مطابق بعض لوگ دکنی کو اردو کا ایک لہجہ سمجھتے ہیں جو درست نہیں۔ یہ فارسی، دہلوی، مراٹھی، کنڑ اور تیلگو زبانوں کا کھچڑا ہے۔ کھچڑا میں لکھ رہا ہوں، انھوں نے لفظ مکس استعمال کیا ہے۔
مجھے امید ہے کہ ہندوستان میں بانو مشتاق کی کہانیوں کا اردو ترجمہ کیا جارہا ہوگا۔ ورنہ پاکستان میں یہ کام ہونا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ جناب اجمل کمال اسے خوشی سے چھاپیں گے۔