Friday, 18 April 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Trump Aur Kali Gola Mein Mumaslat

Trump Aur Kali Gola Mein Mumaslat

ٹرمپ اور "کالی گولا" میں مماثلت

پرخلوص دوست سنجیدگی سے سمجھا رہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ میں امریکی صدر کے رویے کے بارے میں تبصرہ آرائی کرتے ہوئے "احتیاط" سے کام لوں۔ اس کے ملک کی وزارتِ خارجہ متنبہ کرچکی ہے کہ امریکی ویزا جاری کرنے سے قبل اس کے خواہش مندشخص کے موبائل فون کی "تلاشی" ہوگی۔ دیکھا جائے گا کہ وہ دنیا کی سپرطاقت کہلاتے ملک کے بارے میں فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ پر کیا لکھتا ہے۔ میں تو ایک معتبر ومستند اخبار کے لئے ہفتے میں پانچ دن کالم لکھتا ہوں۔ ان میں سے کم از کم دو تو گزشتہ کئی دنوں سے ٹرمپ کی ذات اور سیاست پر نکتہ چینی پر مبذول رہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ امریکی ویزے سے انکار ہوجائے۔

امریکہ جانے کا لیکن مجھے کبھی شوق نہیں رہا۔ اس کے باوجود یہ حقیقت بھی کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگی کہ زندگی میں پہلی بار امریکہ گیا تو وہاں کے مدیرانِ اخبار کی ایک تنظیم کی دعوت پر گیا۔ اس تنظیم نے "تیسری دنیا" کہلاتے ممالک کے تقریباََ 120نوجوان صحافیوں سے 1986ء کے آغاز میں رابطہ کیا۔ ان سے درخواست ہوئی کہ وہ جس اخبار کے لئے کام کرتے ہیں اس میں چھپی اپنی چھ کے قریب خبریں یا کالم بھیجیں۔ ان کا جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ ہوگا کہ انہیں امریکہ بلانے کی دعوت دی جائے یا نہیں۔

مجھے یہ دعوت ملی تو چھ کے قریب خبریں یا کالم بھیجنے کی شرط کو رعونت سے اپنی تحقیر سمجھا۔ ان دنوں امریکی وزارت اطلاعات کی جو افسر اسلام آباد میں تعینات تھیں نہایت شفیق بزرگ تھیں۔ انہوں نے گھر بلاکر مہربان مائوں کی طرح مجھے نرم رویہ اختیار کرنے کو مجبور کیا۔ مشاہد حسین سید میرے ایڈیٹر تھے۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں میرے اندر موجود "انقلابی" کا چسکہ لیتے ہوئے اصرار کرتے رہے کہ مجھے علم کی خاطر جو دعوت ملی ہے اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ میں نے اپنے لکھے پانچ کالم اور ایک خبر لہٰذا بھجوادی۔

اس کے بعد مجھ سے لکھ کر کچھ سوالات ہوئے۔ وہ میرے صحافت کے بارے میں نظریات جاننے کے لئے ڈیزائن ہوئے تھے۔ میں نے ان کا بھی برجستہ دیانتداری سے جواب دیا۔ دو ماہ بعد امریکہ آنے کی دعوت مل گئی۔ حیران کن اطلاع یہ بھی ملی کہ دنیا میں سفارت کاری کی تعلیم کے لئے بوسٹن کا مشہور فلیچر سکول آف لاء اینڈ ڈپلومیسی ہمارے پروگرام کا نگہبان ہوگا۔ امریکہ کے واپسی سمیت سفر اور وہاں رہنے کے تمام اخراجات کی ذمہ داری بھی میزبانوں نے اٹھائی۔ اس کے علاوہ روزانہ خرچے کے لئے معقول رقم بھی فراہم ہوئی جسے خرچ کرتے ہوئے میں تقریباََ تھک جاتا۔

مذکورہ پروگرام چھ ماہ تک جاری رہا۔ اس کے دوران میں امریکہ کے تمام بڑے اخبارات اور ٹی وی سٹیشنوں میں گیا۔ اس کے علاوہ ایک مہینے تک سان فرانسسکو کے ایک تاریخی اخبار میں ایک مہینے تک وہاں کے سٹاف کی طرح کام بھی کیا۔ پروگرام ختم ہونے کے عین دوسرے روز مگر پاکستان لوٹ آیا۔ اس پروگرام کے علاوہ تقریباََ ہر دوسرے برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس پر رپورٹنگ کے لئے بھی نیویارک جاتا رہا ہوں۔

نائن الیون کے بعدبھی مجھے امریکہ جانے کا پانچ سال والا ویزا ہمیشہ میسر رہا۔ عمران خان کی حکومت نے جب مجھے ٹی وی سکرینوں کے لئے بوجھ ٹھہرایا تو میرے پاس امریکہ میں قیام کے لئے چار سال کا ویزا موجود تھا۔ کئی دوستوں نے مشورہ دیا کہ وہاں جاکر یوٹیوب شروع کردوں۔ اس ضمن میں چند مہربان خرچہ اٹھانے کو بھی تیار تھے۔ طبیعت مگر اس طرف مائل ہی نہ ہوئی۔ اپنے گھر میں رہتے ہوئے ہی مشکل وقت کا سامنا کیا۔ عمر کے اس حصے میں جبکہ دنیا چھوڑنے کی تیاری ہورہی ہے وطن چھوڑ کر امریکہ جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ ٹرمپ کے بارے میں اپنے خیالات کے اظہار سے لہٰذا باز نہیں آئوں گا۔

جب سے اس نے دوسری بار صدر کا عہدہ سنبھالا ہے اقبال کا "ثبات اک تغیر کو ہے، "ہر صبح یاد آجاتا ہے۔ چند ہی روز قبل پاکستان سمیت دنیا کے تقریباََ ہر ملک کی امریکہ آنے والی مصنوعات پر اس نے اضافی ٹیکس عائد کردیا تھا۔ درآمدات پر لگائے ٹیکس کو اقتصادی زبان میں ٹیرف کہا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ ٹیرف چین کی مصنوعات پر لگائے گئے۔ ان پر ٹیکس لگانے کی وجہ سمجھ آسکتی ہے۔

"امریکہ کو دوبارہ عظیم" بنانے کے جنون میں ٹرمپ نے مگر جرمنی اور جاپان جیسے "دوست" ممالک کی مصنوعات پر بھی بھاری بھر کم ٹیکس لگادئے۔ اس کے فیصلے کی وجہ سے دنیا بھر کی سٹاک ایکس چینج کریش ہوگئیں۔ سارا عالم سکتے میں آگیا۔ یہ خوف پھیلنا شروع ہوا کہ دنیا 19ویں صدی کے ابتدائی برسوں کی طرح کساد بازاری کی جانب بڑھ رہی ہے جو بالآخر پہلی عالمی جنگ کا باعث ہوئی تھی۔

پاکستان جیسے ممالک کسادبازاری کے امکانات کو ذ ہن میں رکھتے ہوئے متبادل حکمت عملی تیارکررہے تھے تو بدھ کی شب امریکہ کی صبح کا آغاز ہوتے ہی ٹرمپ نے اعلان کردیا کہ فی ا لوقت وہ چین کے سوا دنیا کے ہر دوسرے ملک کی مصنوعات پر لگائے ٹیکس کو 90دنوں کے لئے موخر کررہا ہے۔ اس کی وجہ اس نے یہ بتائی کہ ان سب ممالک نے غصے میں آکر امریکی مصنوعات پر جوابی ٹیکس عائد نہیں کئے۔ امریکہ سے بلکہ درخواست کی ہے کہ وہ ان کا کیس توجہ سے سن کر ان کی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح عائد کرنے یا نظرانداز کردینے کا فیصلہ کرے۔ چین کی منصوعات پر اگرچہ ٹیکس کو 125فی صد کردیا گیا ہے۔

نظربظاہر متلون مزاج فیصلوں کے باوجود ٹرمپ اپنے رویے سے یہ حقیقت عیاں کیے جارہا ہے کہ اپنے دور صدارت کے دوران وہ اس امر کو یقینی بنانا چاہے گا کہ اقتصادی اعتبار سے چین امریکہ کے مقابلے کی اقتصادی طاقت نہ رہے۔ اقتصادی اعتبار سے کمزور چین دنیا پر امریکی اجارے کے لئے دفاعی یا فوجی اعتبار سے بھی "خطرناک" نہیں ہوسکتا۔ کئی حوالوں سے میں امریکہ میں چین کی سرعت رفتار ترقی کی بابت پریشانی کی وجوہات سمجھ سکتا ہوں۔

آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک نے بنیادی طورپر 1970ء کی دہائی میں امریکہ سے صلح کے بعد دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو اپنے ہاں صنعتیں لگانے کی دعوت دینے کے بعد علم کے فروغ سے اپنے نوجوانوں کو اس قابل بنایا کہ وہ امریکہ اور جرمنی جیسے صنعتی اعتبار سے طاقتور ممالک کا مقابلہ کرسکیں۔ صنعت کے جدید ترین نظام کے لئے مشینی ذہانت کا استعمال کلیدی ہوتا جارہا ہے۔ چین نت نئے تجربات کے ذریعے اس ضمن میں کامل مہارت حاصل کررہا ہے۔ چند دن قبل امریکہ کا ایک مشہور صحافی -ٹام فریڈمین- تقریباََ ایک ہفتہ چین میں گزار کر آیا اور ایسی عمارتوں کا دورہ کیا جہاں دن کے 24گھنٹے مشینی ذہانت کے حوالے سے نت نئی ایجادات ہورہی ہیں۔

اپنے دورے کے بعد وہ مصر ہے کہ ٹرمپ کو چین سے نفرت بڑھانے کے بجائے وہاں کے صنعت کاروں اور ہنرمندوں کو درخواست کرنا چاہیے کہ وہ امریکہ میں سرمایہ کاری کریں۔ وہی کام جو امریکہ نے چین میں سرمایہ کاری کے ذریعے 1970ء کی دہائی سے شروع کیا تھا۔ ٹرمپ مگر فریڈمین جیسے صحافیوں کو حقارت سے "لبرل" کہتے ہوئے "ذہنی معذور" ٹھہراتا ہے۔ خود کو عقل کل سمجھتا ہے اورنہایت سنجیدگی سے یہ سمجھتا ہے کہ وہ چین کی معاشی ترقی ناممکن بنادے گا۔ اس کی خودپسندی اور متلون مزاجی پر غور کرتا ہوں تو رومن ایمپائر کا "کالی گولا" نامی شہنشاہ یاد آجاتا ہے۔ کالی گولا کے بارے میں جاننے کی خواہش ہو تو انکل گوگل سے رجوع کیجئے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Chacha Bakhshu Ki Faryad

By Khalid Mahmood Faisal