Gofer State
گوفر اسٹیٹ

یہ 2008 کی گرمیوں کی بات ہے کہ میرے باس نے مجھے اپنے کمرے میں بلوایا اور کچھ اہم اور غیر شرعی اعضاء کا نام لے کر مجھے خوب غیر شرعی طور پر زبانی زود و کوب کیا اور کہنے لگا۔۔ اب تم سینئر مینجمنت کا حصہ بنتے جا رہے ہو۔۔ ڈرائیوروں اور آفس بوائے کے ساتھ سینگ مت پھنسایا کرو۔۔ تین خواتین پچھلے ایک سال میں تم پر ھراسگی کا الزام لگا چکی ہیں۔۔ میں نے کہا۔۔ تو کونسا ثابت ہوا ہے۔۔ بولے۔۔ شاباش! ثابت ہونا باقی ہے کیا؟ مین نے آنکھیں نکال کر کہا تینوں نے مجھ سے معافی بھی مانگی اور ایک نے تو کہا تھا کہ اگر آپ مجھ سے شادی کر لیں تو میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہو جائے گی۔۔
جب آپ کو شکایت لگائی کہ اب عورت مجھے ہراساں کر رہی ہے تو آپ نے کہا ہماری اس وقت صنفی پالیسی میں ایسی کوئی بات نہیں انسان بنو۔۔ ویسے آپ کا شکریہ کہ آپ ہر کیس میں مجھے بچا لیتے ہیں۔۔ تو وہ بولے میں جانتا ہوں تم عورتوں کو ہراساں نہیں کرتے۔۔ یہ حس سمجھدار مردوں میں ہوتی ہے۔۔ تم ایک ٹریکٹر نما آدمی ہو۔۔ جسے بس۔۔ بس بس۔۔ مجھے زیادہ باتیں نہ سنائیں۔۔ تین رشتے آپ نے خود میری والدہ کو لے جا کر دکھائے تھے۔۔ وہ غصے سے بولا۔۔ کیا کروں، تم میرے دوست بھی تو ہو۔۔
اب میری باری تھی۔۔ میں نے کہا کوئی دوست وغیرہ نہیں۔۔ جب سے آپ کی NGO میں آیا ہوں بس آپ باس اور میں آپ کا ملازم ہوں۔۔ ویسے تو وہ سخت لونڈا ہے لیکن یہاں نرم پڑھ گیا۔۔ بولا یار۔۔ تم پلیز دفتر میں لحاظ کیا کرو۔۔ نہ مرد دیکھتے ہو نہ عورت۔۔ ہر ایک تم سے ہراساں و پریشاں ہے۔۔ اس روز تم نے گاڑیوں کی انسپیکشن میں جن کے اشارے(indicator) کام نہیں کر رہے تھے وہ توڑ دئے اور ڈرائیور کی تنخواہ میں ڈال دئے۔۔ دو روز قبل (مس فلاں) نے مجھے لورالائی سے رات 10 بجے فون کیا کہ دیکھیں سر۔۔ مجھے سلیم صاحب نے کیسی گندی جیپ دی ہے نہ اس میں Ac ہے اور اتنے جھٹکے دیتی ہے اور میں عورت ہوں اور میری طبیعت بھی خراب ہے۔۔
میں نے انہیں کہا تھا مجھے لینڈ کروزر دیں انہوں نے سوزوکی جیپ دی۔۔ یہ جان بوجھ کر مجھ سے بدلے لیتے ہیں۔۔ یار۔۔ تم freak ہو کوئی عورت کے ساتھ ایسا کرتا ہے۔۔ میں مسکرایا اور کہا۔۔ یہ اس دن میٹنگ میں فرما رہیں تھیں کہ ہم عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔۔ ہماری محنت مردوں سے زیادہ ہے۔۔ ہم برابری کے حقوق چاہتے ہیں۔۔ تو پہلے میں خواتین کو فیلڈ وزٹ میں نرم گاڑیاں اور مردوں کو سوزوکی جیپ دیا کرتا تھا۔۔ اب سوچا ہے برابری کے اصول ایک مہینہ استعمال کر لیتے ہیں۔۔ باس بولا۔۔ بس کرو تمہیں میں نے اب کچھ اہم منیجمنٹ ٹریننگ کروانی ہیں۔۔ یہ پہلی ٹریننگ ہے تم اس پر جاو اور ہاں واپس آ کر ہمارے تمام دفتروں میں تم یہ ٹریننگ کراو گے۔۔ یاد رکھو۔۔ یہ اب مجھے تم سے مجھے چاہئے۔۔ میں کمرے سے نکل آیا۔۔
خیر میں اپنے باس کا ہمیشہ سے مشکور رہا ہوں اس نے بطور دوست مجھے بہت کام سکھایا ہے۔۔ جس ٹریننگ پر اس نے مجھے بھیجا تھا۔۔ اس ٹریننگ نے میری زندگی کا زاویہ نگاہ بالکل تبدیل کر دیا اور میں نے آئندہ آنے والے 3 سالوں میں دفتر اور خود کو بہت تبدیل کیا۔۔ اس ٹریننگ میں جو ماسٹر ٹرینر خاتون تھیں۔۔ وہ ملک کی ایک مایہ ناز سیاستدان بن کر ابھریں اور گزشتہ چند سالوں میں خوب اچھا نام کمایا ہے۔۔ انہوں نے دوران ٹریننگ یہ الفاظ سب سے کہے تھے کہ اس ٹریننگ کا استاد جس نے یہ ٹریننگ ایجاد کی ہے۔۔ وہ یہ کہتا ہے کہ جو شخص ان اصولوں پر ایک سال کاربند رہے۔۔ وہ اگلے تین سالوں میں اپنے ادارے کے سربراہوں میں سے ایک ہوگا۔۔ یا اپنے کاروبار کی ایک پہچان ہوگا اور جو میں نے سچ پایا۔۔ اس ٹریننگ میں دو اصول واضح کئے گئے تھے۔۔ جن کے گرد وہ تمام پر اثر افراد کی عادات گھومتی ہیں۔۔ حالانکہ یہ دونوں اصول خصوصی طور پر اس ٹریننگ کا حصہ نہیں تھے مگر جوں جوں انہیں سمجھتا گیا اور پڑھتا گیا۔۔ اپنے ملک اپنے اداروں اور اپنے گھروں کے مسائل سمجھ آنا شروع ہوئے۔۔ یہ دو اصول ایک "گوفر" gofer اپروچ اور دوسرا اسٹیورڈ اپروچ "Steward approach" ہیں۔۔
سادہ الفاظ میں "گوفر" جیسے نام سے ہی عجیب ہے ویسے ہی کام بھی ہے۔۔ یعنی آپ اپنے بچے، اپنے ملازم، اپنے ماتحت پر اعتبار نہیں کرتے۔۔ اسے آپ نے کچھ صلاحیتوں کے باعث اپنا تو لیا ہے مگر آپ ان کی صلاحیتوں کا اعتبار نہی کرتے۔۔ آپ سمجھتے ہیں کہ جب اسے کام بتاو یہ الٹ کرکے آتا ہے۔۔ غلطی اس کے خون میں شامل ہے۔۔ یہ ناقابل اصلاح ہے اسی لئے مائیں اسے محبت کا نام دے کر بیٹوں کو بغیر کسی ذمہ داری دئے پروان چڑھاتی ہیں۔۔ بیٹیوں کو اس بات پر سونے دیتی ہیں کام کی عادت نہیں ڈالتی کہ "رانو" پرائے گھر جائے گی تو بوجھ پڑنا ہے سیکھ جائے گی۔۔ اس لئے بچپن سے ان کے ہوم ورک سے لیکر امور خانہ داری تک لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک تحفہ بنایا جاتا ہے جو صرف حقیقی زندگی میں سجانے کے کام آتا ہے اور یہی گوفر اپروچ اگے چل کر بچوں کو اپنی ناکام زندگیوں کی صورت میں بھگتنا پڑتی ہیں۔۔
اسی طرح ہم اپنے ماتحت کے حصے کا کام دو وجہ سے خود کرتے ہیں یا تو ہمیں ان کی صلاحیتوں پر اعتبار نہیں ہوتا اور یا ہم ان کی صلاحیتوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔۔ اس لئے انہیں حکم دیتے ہیں کہ جیسا میں نے کہا ویسا ہی کرنا۔۔ جب اس کام کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے تو ہم اپنے ماتحت کو ذمہ دار ٹھرانا اور اس کو دباؤ میں رکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔۔ اس کے کاروباری اور حکومتی سطح پر دو نتائج نکلتے ہیں۔۔ پہلا افسر کو اپنے ماتحت کے حصے کا کام نمٹانا پڑتا ہے۔۔ جس سے اس کے حصے کا کام سالہا سال نامکمل رہتا ہے اور کام فائل میں دبے رہ جاتے ہیں۔۔ دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ماتحت لاپرواہی برتنے میں ماہر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے نتائج کو سنبھالنا اس کے افسر کی ذمہ داری ہے۔۔ اس کا کام صرف افسر کی خوشامد اور ناجائز طریقہ سے اسے خوش کرنا رہ جاتا ہے۔۔
دوسری اپروچ جسے "اسٹیورڈ" کہا جاتا ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلے مناسب کام کے لئے مناسب بندہ چنا جاتا ہے۔ یا کسی میں مخصوص صلاحیتوں کو پیدا کرکے اسے کام سونپا جاتا ہے۔۔ اس کے لئے پہلے اسے سکھایا سمجھایا جاتا ہے، اس کی مہارت پر اعتبار کیا جاتا ہے۔۔ اسے یہ اعتماد دلایا جاتا ہے کہ تم چونکہ اس کام کے قابل ہو اس لئے تمہیں یہ کام دیا جاتا ہے۔۔ لیکن اس کام کو اسے تفویض کرنے سے قبل اس کے لئے موافق حالات پیدا کئے جاتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باجود اگر وہ کام کو کرنے میں ناکام ہو تو اس کی ذمہ داری اس پر ڈالی جاتی ہے اور پھر اسے یا تو سبکدوش کر دیا جاتا ہے یا اس کی مزید ٹریننگ اور موافق حالات پیدا کئے جاتے ہیں۔۔
یہ گھر میں اولاد کو چھوٹے چھوٹے کاموں کی نگرانی اور ذمہ داری اور پھر اس کے نتائج کے متعلق پوچھنے سے شروع ہوتا ہے اور بچے کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ اس کام کو کر لے گا۔۔ اسے اعتماد دیا جاتا ہے اور نتائج نہ ملنے کی صورت میں اسے سزا و جزا کے اصول سے گزارا جاتا ہے۔۔ لیکن اس کے کام کو خود نہیں کیا جاتا۔۔ جب تک وہ بچہ اپنی ذمہ داری کو سمجھ نہ لے اور یہی اصول کاروبار، سیاست اور نوکریوں میں لاگو کیا جاتا ہے۔۔ لیکن اس سے پہلے باس کا، مالک کا وزیراعظم کا خود میرٹ پر ہونا ضروری ہے۔۔ ورنہ اپنے ماتحت کا اگے نکل جانے کا ڈر اسے اپنے ماتحت کی صلاحیتوں سے خوفزدہ رکھتا ہے اور یہی خوف حکومت، سیاست اور اداروں میں غیر صلاحیت یافتہ افراد یا خوشامدی ٹولوں کی بھرتی کا باعث بنتا ہے۔۔
دنیا کی سب سے بڑی کرپشن کسی بھی کام کے لئے ناموزوں بندے کا چناو ہے۔۔ انگریزی کی مثال right man for right job شاید ایک جملہ ہے مگر یقین جانیں۔۔ یہ ایک ایسی بنیاد ہے جس پر قومیں کھڑی ہوتی ہیں اور اس کی ابتداء اگر آپ نے گھر میں اپنے بچے کو دل مضبوط کرکے ذمہ داری سونپنے سے نہ کی تو آپ اپنے بچے کو تمام عمر خوشامد ہٹ دھرمی اور ناکامی کا ایک سبق دے رہے ہیں اور بچے کی جہنم کے زمہدار آپ خود ہیں۔۔
آخر میں اسی کتاب سے ایک واقعہ پیش کرتا ہوں "جاپان کی سونی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو اور ان کے ایک کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ٹھنی ہوئی تھی۔۔ چیف ایگزیکٹو صاحب جو نئی بات یا آئیڈیا لے کر بورڈ آف ڈائریکٹرز میں پیش کرتے ایک ڈائریکٹر اعتراضات اٹھا دیتا۔۔ آخر میں چیف ایگزیکٹو نے اپنا استعفا پیش کر دیا کہ ان حالات میں جبکہ فلاں صاحب مجھ پر گہری تنقید کرتے ہیں میرا کام کرنا مشکل ہے۔۔ جس پر اس ممبر بورڈ آف ڈائریکٹر نے پوری میٹنگ میں یہ بات کہی کہ آپ کو استعفے کی ضرورت نہیں۔۔ ہم دو لوگ دو مختلف عہدوں پر اسی لئے چنے گئے ہیں کہ ہم اپنی اپنی آراء دے سکیں۔۔ اگر مجھے آپ کی ہر بات سے اتفاق ہو تو پھر اس ادارے کو ایک ہی عہدہ رکھنا چاہئے۔۔ دو عہدے نہیں۔۔ اسی اختلاف کی بنیاد پر سونی کمپنی نے سب سے پہلے واک مین Walkman اور تار کے ذریعے سے اس کے ائیر فون ایجاد کئے۔۔ لیکن اس میں دو عہدوں پر دو قابل اشخاص کی ضرورت ہے۔۔ گوفر کبھی ترقی نہیں کرتے کیونکہ انھیں احتساب کا ڈر نہیں ہوتا۔۔ چاہے سیاستدان ہو، استاد ہو، پیار کرنے والے والدین ہوں یا چہیتی اولاد ہو۔۔ اسی لئے تو رحمت العالمین کریمﷺ سے اللہ نے فرمایا ہے کہ۔۔
وَلا تَأخُذكُم بِهِما رَأفَةٌ فى دينِ اللَّهِ ﴿2﴾ سورةالنور
"ترجمہ: اللہ کے دین کے معاملے میں ان پر ترس کھانے کا جذبہ تم پر غالب نہ آجائے۔