Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ali Ahmar
  4. Neeli Bar Az Tahira Iqbal

Neeli Bar Az Tahira Iqbal

نیلی بار از طاہرہ اقبال

یہ طاہرہ اقبال کا پہلا ناول ہے جو میری نظر سے گزرا ہے۔ تارڑ صاحب نے جب طاہرہ اقبال کو "قرات العین طاہرہ" کا خطاب دیا تب ہی میں سمجھ گیا تھا کہ اس ناول کا "اُسلوب شکستہ" ہوگا۔ پھر بھی سوچا چلو پڑھ کر دیکھتے ہیں شاید کوئی کام کی بات نکل ہی آئے۔

"نیلی بار" جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ ناول کس بارے میں ہوگا۔ اس سے پہلے میں نے ایک روسی ناول پڑھا تھا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ اس ناول نے "جرم و سزا" سے زیادہ میری بریکیں لگوائی۔ روسی ناولوں میں اگر ان کے ناموں اور مقامی جگہوں کی وجہ سے قاری تنگ ہوتا ہے تو اس میں مصنفہ نے جابجا جو مقامی زبان، الفاظ اور لہجوں کا استعمال کیا ہے وہ پڑھنے میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ اگر یہ ناول کوئی اس علاقے کا بندہ پڑھتا ہے تو وہ اسے بہت انجوائے کرے گا کیونکہ اس علاقے کی تہذیب اور بود و باش بہت احسن طریقے سے بیان کی گئی ہے۔ مگر ایک عام قاری کے لیے وہ چیزیں سمجھتا تھوڑا سا مشکل ہو جاتی ہیں۔

پنجاب پنجاب پنجاب۔ پنجاب جو کہ میرا رومان ہے اس کے پس منظر میں بہت سے لوگوں نے ناول لکھے ہیں جن میں بلونت سنگھ، علی اکبر ناطق، شوکت صدیقی، عبد اللہ حسین، مستنصر حسین تارڑ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ ہر کسی نے پنجاب کو ایک الگ ہی طریقے سے بیان کیا ہے۔ نیلی بار میں بہت سے واقعات ایسے ہیں جو آپ کو مذکورہ بالا ناولوں میں بکھرے ہوئے ملتے ہیں بلکہ اپنی معراج پر نظر آتے ہیں۔

پنجاب کے تناظر میں میرے پسندیدہ ناولز "چک پیراں کا جسا" اور "نولکھی کوٹھی" ہیں۔ اگر ہر دو ناولوں کی بات کی جائے تو ان کی کہانی اور کردار بہت زیادہ جاندار ہیں۔ منظر نگاری پوری کہانی میں "کھانے میں نمک کی مانند" محسوس ہوتی ہے یا اگر آپ جارج کلونی کی فلمیں "Ocean series" دیکھیں تو اس میں آپ کو پس منظر میں جو "jazz" میوزک چلتا سنائی دیتا ہے وہ کہانی اور کرداروں میں مزید جان ڈال کر کہانی کا مزہ دوبالا کر دیتاہے۔ یہ ناول اس چیز سے عاری ہے۔ اس میں پنجاب (نیلی بار) کی ثقافت تو بہت زیادہ دکھائی گئی ہے جو کہ کرداروں کو اوور لیپ کر جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے کہانی بہت کمزور ہو جاتی ہے۔

بہت سے کردار بیچ سے یکدم غائب ہو جاتے ہیں اور بہت کردار صدیوں کے وقفے سے واپس کہانی میں آ وارد ہوتے ہیں جن کے بیچ کا لنک مصنفہ سے چھوٹ جاتا ہے۔ اس ناول کا وقت پاکستان بننے کے بعد سے شروع ہو کر اکیسویں صدی کے شروع تک کا دکھایا گیا ہے جس میں پاکستان کا جاگیرداری نظام، اشرافیہ کے کرتوت، مولویوں اور پیروں کے کردار کے اوپر بات کی گئی ہے۔ میں جب یہ ناول پڑھ رہا تھا تو مجھے شوکت صدیقی کا ناول "جانگلوس" بار بار ذہن میں آ رہا تھا جو کہ اسی تناظر میں لکھا گیا ہے اور اس سے کہیں زیادہ جاندار ہے۔

پھر اگر اس ناول میں افغان جہاد کی بات کی جائے، مدرسوں سے بھرتیوں کی بات کی جائے، جنگ ختم ہونے کے بعد "مجاہدین سے طالبان" تک کے سفر کی روداد بیان کی جائے تو اس ضمن میں صفدر زیدی کا "بھاگ بھری" اور علی اکبر ناطق کا "کماری والا" بہترین ناولوں میں شمار ہوتے ہیں۔

الغرض مجھے یہ ناول پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوا کہ اس میں کوئی بھی نئی بات نہیں ہے سب کچھ پہلے سے لکھا ہوا ہے اور اس سے بہتر انداز میں لکھا ہوا ہے۔ ابھی اور بھی بہت سے عناصر اس میں ایسے ہیں جن پر دوسری کتب کا گمان ہوتا ہے۔

خیر یہ سب آرا اور پسند نا پسند میری اپنی ذاتی ہیں جس سے اختلاف کا حق میرے دوستوں کو حاصل ہے بشرطیکہ وہ یہ کتاب پڑھیں اور مجھ پر علمی اعتراض اٹھائیں۔ باقی جو نیلی بار کے علاقے کے دوست پڑھنے کے شوقین ہیں ہیں اور وہاں کی بود وباش کے چشم دید گواہ ہیں، ان کو یہ ناول بہت مزہ دے گا۔

Check Also

Trump Card Aur Bunyan Al-Marsoos

By Arif Anis Malik