چچا بخشو کی فریاد

ادارے میں داخل ہوتے ہی جس معطر فضا کا آپ کو احساس ہوتا ہے، اس کاوش کے پیچھے چچا بخشو کا بڑا ہاتھ ہے، اصل نام محمد بخش ہے۔ نوجوان تھا جب ادارہ میں آیا، تعلیم بھی واجبی سی تھی، مالی کی پوسٹ پر جاب ملی، پھولوں اور درختوں اسے بہت پیار ہے، دوست نے بتایا کہ ہر وقت اس کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی پودا ہوتا ہے، یہ پھولوں میں لگے گملے درست مقام پر رکھنے میں مصروف رہتا ہے، نئی نئی کیاریاں بنانا اس کا مشغلہ ہے، اس کی اضافی خوبی یہ بھی ہے کہ یہ اپنی نرسری خود تیار کرتا ہے، اسے پانی دینا، پودوں کی خراش تراش کرنا، انکی قلمیں بناتے رہنے میں لگا رہتا ہے۔
بڑے افسر کا دورہ جب کبھی متوقع ہوتا، یہ پہلے سے زیادہ متحرک ہوجاتا، اسکی پوری کاوش ہوتی کہ ہر جگہ نئے پھول کھلتے اور لہلہاتے نظر آئیں، درختوں کے نیچے صفائی کا خصوصی اہتمام ہو، ان کے تنوں میں مٹی اور چونا لگا ہو، انکی مناسب کٹائی بھی ہو، دیہاتی پس منظر کی بدولت وہ تمام کام اچھی طرح جانتا اور انجام دیتا ہے۔
تمام اسکی بڑی تعریف کرتے ہیں بہت ہی ذمہ داری سے یہ فرائض منصبی انجام دیتا ہے فارغ اوقات میں یہ پرائیویٹ کام بھی کرلیتا ہے، تاہم دفتری اوقات کار میں یہ باغبانی سے متعلق کسی کا کام نہیں کرتا، درجہ چہارم کا ملازم ہونے کے باوجود سب اسکی عزت کرتے ہیں۔
دوست نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بیٹیاں عطا کی ہیں، اپنی محدود آمدنی کی بدولت اس نے بیٹیوں کو تعلیم دلوائی ہے لیکن بہت ہائی فائی تعلیمی اداروں میں بچے پڑھا نہیں سکا ہے اس کے بچے زیادہ تر سرکاری اداروں ہی میں پڑھے ہیں۔
چچا بخشو کا ایک وصف یہ بھی کہ جب اسے وقت ملتا وہ کسی دفتر میں بیٹھ کر اخبار پڑھتا خاموش طبع اور اس کے مزاج میں لالچ نہیں تھا، اگرچہ اسکی مالی ضروریات درجہ چہارم کے ملازمین کی طرح کم ہی پوری ہوتیں مگر پیسے کے پیچھے ہم نے اسے بھاگتے نہیں دیکھا، جب کبھی کوئی فنکشن ادارہ میں ہوتا وہ کھانے میں شریک نہ ہوتا جب تلک اس کو باقاعدہ بلوایا نہ جاتا، بن بلائے مہمان بننا اسے پسند نہ تھا۔
کبھی اسے شکوہ کرتے بھی نہ سنا وہ بڑا ہی شاکر انسان ہے ایک زمانے میں اسی مزاج کا حامل دفتر میں نائب قاصد بھی تھا، دیگر ملازمین کو اور انھیں دیکھ کر لگتا یہ لوگ کسی اور مٹی کے بنے ہوئے ہیں، جن میں صبر، قناعت، شکر، کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، دوست نے کہا کہ عمومی رائے یہ ہے کہ درچہ چہارم کے ملازمین زیادہ کاہل، سست اور بہانے باز ہوتے ہیں مگر یہ سب سے الگ تھلگ ہے، ایک روز دوست نے چچا بخشو سے پوچھا کہ تمھیں علم تھا کہ اتنی کم تنخواہ پر یہ ملازمت کرنا پڑے گی اور اس میں ترقی بھی واجبی سی ہے، جواباً اس نے کہا کہ میری کونسی کوئی جائداد تھی، گاؤں میں بھی کسی کے مکان میں رہتا ہوں، اگر نوکری نہ ملتی تو شائد شادی بھی نہ ہوتی، بس پکی نوکری سمجھ کر یہاں آگیا ہوں، اس طرح بچے بھی پڑھ گئے ہیں، دوست نے اسے کہا کہ کسی اچھے محکمہ میں چلے جاتے تمھاری آمدنی میں اضافہ ہوتا، چچا بخشو نے کہا کہ میں سمجھ گیا، صاحب جی! مجھے ایسی دولت سے دور ہی رکھیں، حرام کمائی کے اثرات بچوں پر پڑتے ہیں۔
جیسے جیسے اسکی ریٹائرڈمنٹ کے دن قریب آرہے تھے وہ فکر مند سا رہنے لگا تھا، ایک روز دوست نے اسکی پریشانی کا سبب پوچھا تو کہنے لگا، چند ماہ کے بعد میں یہاں سے چلا جاؤں گا، یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بھر آئی اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ تیرے پاس تو فن ہے تو کبھی بھی بھوکا نہیں مرے گا، تیرے پیچھے پیچھے لوگ ہوں گے، بخشو بولا صاحب جی! یہ بات نہیں اپنے کام سے تو مجھے پیار ہے میری پریشانی بچیوں کے حوالہ سے ہے، دعا کریں اتنی گریجوئٹی مل جائے کہ انھیں اپنے گھر رخصت کر سکوں۔
سرکار نے پنشن قوانین میں بڑی تبدیلی کردی، خبر پڑھنے کے بعد تو اس کے اوسان خطا ہوگئے، بھاگم بھاگ دوست کے پاس گیا، پوچھا کہ پنشن میں ترمیم سے اس کو نقصان تو نہیں ہوگا، دوست نے جھوٹی تسلی دے کر کہا فکر نہ کرو سنا ہے کہ سرکار سابقہ طریقہ بحال کردے گی، یہ سنتے ہی وہ جذباتی ہوگیا، بولا یہ کیسا انصاف ہے جن شرائط پر میں بھرتی ہوا تھا اس پر ہی مجھے ریٹائرڈ کرنا چاہئے، اچھا ہوتا میں بھی عوامی ڈیلنگ کے کماؤ محکمہ میں چلا جاتا، مالی کے بجائے نائب قاصد کی سیٹ لیتا روزانہ مٹھی گرم کرتا، مجھے تنخواہ نکالنے سے کوئی سروکار نہ ہوتا، میں ایسے ہزاروں ملازمین کو جانتا ہوں، جو سال ہا سال سے تنخواہ بنک سے نہیں نکلواتے اور رشوت پر گھر چلاتے ہیں، سرکار نے میری ایماندار ی کایہ صلہ دیا، اخبار آگے بڑھاتے ہوئے بولا پنشن رولز میں تبدیلی کے لیے پسند نا پسند کا کلیہ اپنایا ہے، طاقتور محکموں کی سابقہ مراعات کو بحال رکھا گیا ہے یہ ظلم ہی نہیں جبر بھی ہے۔ شور سے اسکی آواز بیٹھ گئی، اتنی کم گریجوئٹی اور پنشن میں گھر کیسے تعمیر کروں گا، بچیوں کی شادی میرا خواب ادھور رہ جائے گا، اتنی رقم میں تو شادی سادگی سے بھی نہیں ہو سکے گی۔
دوست نے اسکی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ تم لون لے لینا، وہ غصہ سے بولا، قسط کہاں سے دوں گا، عالمی ادارہ کہہ رہا ہے پنشن کا بوجھ کم کرو، مالی بخشو بولا، ارباب اختیار کے پروٹوکول، فضول خرچی کے لچھن عالمی ادارہ کو نظر نہیں آتے، ملازمین کے سر سے عزت کی چادر بھی اتارنا چاہتے ہیں، میں ان بچیوں کا سامنا کیسے کروں گا، جن سے میں نے پنشن پر گھر بنا کر دینے کا وعدہ کیا ہے صاحب کا بلاوا آیا وہ رومال سے آنکھیں صاف کرتے چلا گیا۔
خلاف توقع صاف سفید جوڑا بخشو نے زیب تن کیا ہوا تھا، مالی بخشو کی ملازمت کا آخری دن ہے، بڑے صاحب نے اسے چائے پر بلایا ہے، انکا ڈرائیور اسے گھر چھوڑنے جائے گا، دوست کے ہمراہ جب دفتر داخل ہوئے تو اس کے گلے میں ہار ڈالے جارہے تھے، بوجھل دل کے ساتھ اس نے مبارک باد وصول کی، اس کا دل اور دماغ پنشن رولز میں تبدیلی پر اٹکا ہوا تھا، تالیوں کی گونج میں سب نے الوداع کہا، چچا بخشو نے صاحب کی طرف عرضی بڑھاتے ہوئے کہا ارباب اختیارات تک میری فریاد پہنچا دینا، عالمی اداروں سے ڈرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے خوف کھائیں جو منصف اعلی ہے ایک لمحہ میں آپ کے پاؤں سے تخت چھین سکتا ہے، مقتدر طبقہ یہ بات جتنی جلد سمجھ لے اتنا ہی ان کے حق میں بہتر ہے صبر اور بے بسی کے سوا میرے بس میں کیا ہے، میں نے تو اللہ کی عدالت میں مقدمہ درج کروا کر اپنا فرض پورا کر دیا ہے تاکہ روز محشر گواہی دے سکوں، میں نے ظلم اور اس جبرکے خلاف آواز اٹھائی تھی۔