Subhan Allah Ke Maqam
سبحان اللہ کے مقام

بے شمار درود و سلام سرکار دو عالم ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔
یوں تو اِس کائنات کے ہر ایک ذرے کی تخلیق پہ غور کیا جائے تو وجدان کی آواز سبحان اللہ ہی ہوگی، اِس میں سب سے پہلے اپنی ذات کا مشاہدہ، اپنے وجود کا مشاہدہ، وجود میں باطن کا مشاہدہ اور باطن پر اترنے والی کیفیات کا مشاہدہ، اِن کو الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔
ایک ہی لفظ زبان پے آتا ہے سبحان اللہ، اللہ تیری قدرت، اپنے وجود سے باہر کی دنیا جو کہ آپ کے وجود کے لیے ہی تخلیق کی گئی ہے، یہ کائنات اور کائنات کی گہرائیاں، پنہائیاں سب اللہ تبارک و تعالی کی کبریائی اور مشیت کی گواہ ہیں۔
ہر انسان کے لیے دوسرا انسان آئینہ ہے، ایک انسان کے لیے دوسرا انسان تخلیق کیا گیا ہے، مقرر کیا گیا ہے اور ایک انسان کا چہرہ دوسرے انسان کے لیے ایک تاثیر رکھتا ہے چاہے وہ ایک رینج میں ہی کیوں نہ ہو۔
قدرت کا سب سے انمول تحفہ محبوب ہے، محبوب کا ہر رنگ ہی نرالا ہے، محبوب کا فراق وصال دونوں نعمتیں ہیں، فراق کے جتنے معجزے ہیں اتنے وصل کے نہیں ہیں۔
محبوب کی یاد آپ کے وجود پر بہت سے اثرات اور معجزات وارد کر سکتی ہے، یوں تو یہ سب سبحان اللہ کے ہی مقام ہیں اور ہر ایک مضمون کو بیان کرنے کے لیے ایک الگ نشست چاہیے، لیکن میں یہاں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سبحان اللہ کی تعریف دراصل ہے کیا۔
اللہ تعالی کا فضل و کرم جب ہوتا ہے تو ایک چھوٹے سے ذرے میں اللہ تعالی کی بڑائی اور کبریائی نظر آ جاتی ہے، جب کوئی انسان ایک کِھلتا ہوا پھول دیکھے اور اِس پھول کے عمل سے وہ اللہ تبارک و تعالی کی ذات تک رسائی حاصل کر لے تو یہ ہے سبحان اللہ کا مقام ہے، ایک ٹوٹے ہوئے پتے کے گرنے سے اللہ تبارک و تعالی کی ذات کی معرفت عطا ہو سکتی ہے، یہ ہے سبحان اللہ کا مقام، یعنی کائنات کی وہ چیز جو کہ ہمارے ارد گرد موجود ہیں اور ہم روزانہ انہیں دیکھتے ہیں اُن کا مشاہدہ ہی ذریعہ بن جاتا ہے مالک کائنات تک پہنچنے کا۔
یہ کیسے ممکن ہے کیسے ہو سکتا ہے یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب دینا بہت مشکل ہے، لیکن کچھ باتیں یقین سے کہی جا سکتی ہیں کہ یہ نظر کرم سے ہی ممکن ہے، یہ عطا ہے اِس کا کوئی فارمولا نہیں بنایا جا سکتا، جب عطا ہوتی ہے تو وہ علم کے در کھلتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے، یہ سارے معجزات محبت کے ہیں، نسبت کے ہیں، تعلق کے ہیں، نظر کرم کے ہیں۔
بزرگوں کے فیض سے یہ ممکن ہے، ادب اور صرف ادب اپنی ذات کا حصہ بنائیے، فیض ادب کا ہی نام ہے۔
اِس کی مثال کچھ یوں دی جا سکتی ہے ایک شخص نے آم کا مشاہدہ کیا اور وہ یہاں تک پہنچا کہ یہ بہت خوبصورت تحفہ ہے دوستوں کو دینے کے لیے، دوسرا شخص اُس کی گٹھلی تک پہنچا اُس کو گٹھلی تک کا علم عطا ہوا، تیسرا شخص آم کے پودے تک پہنچا، چوتھا درخت تک، پہنچا، پانچواں درخت کے بیچ تک اور پھر یہ راز اُس پر کھلا کہ ایک بیچ میں تو کتنے درخت تھے کتنے لاکھوں درخت سمائے ہیں۔
اس مشاہدے کو کرتے کرتے ایک شخص اللہ تبارک و تعالی کی کبریائی و معرفت تک پہنچ گیا، اُسے سمجھ آگئی کہ مالک کون ہے، خالق کون ہے، اُس کے کیا عمل ہیں۔
یہ عطائیں اہلِ عقل پر وارد نہیں ہو سکتیں، کیونکہ اہلِ عقل ایک ترتیب چاہتے ہیں، ایک فارمولا چاہتے ہیں، یہ فارمولے اور تراکیب سے باہر کی باتیں ہیں، یہ وجدان کی باتیں ہیں، روح کی باتیں ہیں، اندر کے اندر کی باتیں ہیں، یہ مالکِ کائنات کی انسان کے ساتھ باتیں ہیں۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو یہ علم عطا ہوئے اور وہ انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ٹھہرے، تو عرض صرف اتنی ہے کہ دعا کریں کہ آپ میں محبت پھوٹ پڑے، نسبت پھوٹ پڑے، اطاعت پھوٹ پڑے، پھر یہ مرحلے آسان ہوتے جاتے ہیں۔
اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔