Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Digital Dunya

Digital Dunya

ڈیجیٹل دنیا

آج کا انسان ڈیجیٹل اسکرینوں کے پیچھے چھپے ہوئے چہروں کے ساتھ جینے پر مجبور ہو چکا ہے۔ صبح کی شروعات الارم کی آواز سے کم اور نوٹیفیکیشنز کی گھنٹیوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا ہماری زندگی کا اتنا بڑا حصہ بن چکا ہے کہ اب اس کے بغیر ایک دن گزارنا بھی اکثر مشکل لگتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سوشل میڈیا ہمارے لیے واقعی ایک نعمت ہے یا آہستہ آہستہ ہماری زندگیوں کو زحمت میں بدل رہا ہے؟

سوشل میڈیا نے بلاشبہ دنیا کو سمیٹ کر ایک موبائل فون کی اسکرین میں بند کر دیا ہے۔ دوست، رشتے دار اور یہاں تک کہ مشہور شخصیات تک رسائی اب صرف ایک کلک کی دوری پر ہے۔ فیس بک، انسٹاگرام، ٹوئٹر (ایکس)، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز نے معلومات کی دنیا کو عام آدمی کی دہلیز تک پہنچا دیا ہے۔ آپ کہیں بھی ہوں، چند سیکنڈز میں دنیا بھر کی خبریں، ٹرینڈز اور ویڈیوز آپ کے سامنے موجود ہوتی ہیں۔

تعلیم کے میدان میں بھی سوشل میڈیا نے نئے امکانات پیدا کیے ہیں۔ آن لائن لیکچرز، تعلیمی گروپس اور معلوماتی ویڈیوز نے خود سیکھنے کا ایک نیا راستہ کھولا ہے۔ نوجوان نسل اب صرف درسی کتب تک محدود نہیں، بلکہ دنیا کے بہترین اساتذہ سے ویڈیوز اور کورسز کے ذریعے مستفید ہو رہی ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود، کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم اس "ڈیجیٹل دنیا" کے عادی تو نہیں بن گئے؟ سوشل میڈیا پر موجودگی اب صرف سہولت نہیں رہی بلکہ ایک ذہنی اور جذباتی بوجھ بن چکی ہے۔ لوگ اپنی زندگیوں کو دوسروں کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کرتے ہیں، جس سے دیکھنے والے احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

حقیقی تعلقات آہستہ آہستہ کمزور پڑنے لگے ہیں۔ خاندان ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے دور ہو چکے ہیں۔ کھانے کی میز پر گفتگو کے بجائے اسکرینوں کی طرف جھکی نظریں ایک خاموش سچائی بیان کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا نے ہمیں دوسروں کی زندگیوں میں جھانکنے کا ایسا موقع دیا ہے جس نے ہماری اپنی زندگیوں سے توجہ ہٹا دی ہے۔

سوشل میڈیا کے کثرتِ استعمال نے ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ فومو (FOMO - Fear of Missing Out) یعنی دوسروں کی زندگیوں میں کچھ خاص ہوتا دیکھ کر خود کو پیچھے محسوس کرنا، نوجوانوں میں ڈپریشن، بے چینی اور خود اعتمادی کی کمی کا سبب بن رہا ہے۔

ایک اور خطرناک پہلو آن لائن بُلینگ ہے۔ سوشل میڈیا پر کی جانے والی تنقید، نفرت انگیزی اور تضحیک آمیز تبصرے بہت سے افراد، خاص طور پر نوعمر بچوں کے لیے نفسیاتی مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے شدتِ غم سے اپنی جان تک لے لی ہے۔

سوشل میڈیا پر معلومات کی فراوانی ہے، لیکن سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ افواہوں، جعلی خبروں اور گمراہ کن بیانیوں نے عوامی سوچ پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ ایک جھوٹی خبر سیکنڈز میں ہزاروں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے، جس کے نقصانات کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم سوشل میڈیا کو مکمل طور پر ترک کر سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں، کیونکہ یہ دور ڈیجیٹل ہے اور ہمیں اس کے ساتھ چلنا ہے۔ اصل چیز توازن ہے۔

دن کا مخصوص وقت سوشل میڈیا کے لیے مقرر کریں۔

خاندان، دوستوں اور ذاتی لمحات کو اہمیت دیں۔

سوشل میڈیا پر ہر چیز کو حقیقت نہ سمجھیں۔

سوشل میڈیا ایک تیز رفتار دنیا کا دروازہ ہے، جو ہمیں معلومات، تفریح اور رابطے کی سہولت دیتا ہے۔ لیکن یہ دروازہ تب ہی فائدہ مند ہے جب ہم اسے سنبھال کر کھولیں۔ اگر یہ بے قابو ہو جائے، تو یہی سہولت ایک ایسی زحمت بن جاتی ہے جو نہ صرف ہمارے وقت کو برباد کرتی ہے، بلکہ ہمارے ذہن، رشتے اور اصل زندگی کو بھی متاثر کرتی ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ "سوشل میڈیا ہمارا غلام ہے، یا ہم اس کے؟"

Check Also

Trump Card Aur Bunyan Al-Marsoos

By Arif Anis Malik