Tuesday, 18 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Adeel Ilyas
  4. Taleem Karobar Ya Muashre Ki Islah

Taleem Karobar Ya Muashre Ki Islah

تعلیم کاروبار یا معاشرے کی اصلاح‎

تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے، لیکن جب تعلیم کا معیار گرنے لگے اور اسے کاروبار بنا دیا جائے تو پورے نظام کو نقصان پہنچتا ہے۔ آج پاکستان میں اسکولوں کی عمارتیں جتنی شاندار ہوتی جا رہی ہیں، تعلیم کا معیار اتنا ہی گر رہا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ Investors بڑی بڑی بلڈنگز، کشادہ کلاس رومز، خوبصورت فرنیچر اور بہترین سہولیات مہیا کر رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ اگر تعلیم کا معیار اچھا نہیں تو ان سب چیزوں کا کیا فائدہ؟

بچوں کو بہترین مستقبل دینے کے دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جو چیزیں نظر آتی ہیں، وہی بیچی جا رہی ہیں، جبکہ جو اصل چیز ہے یعنی "تعلیم"، وہ پیچھے رہ گئی ہے۔ والدین کو اسکولوں کی شاندار عمارتیں، ایئر کنڈیشنڈ کمرے، جدید کمپیوٹر لیب اور دیگر Facilities دکھا کر مطمئن کر دیا جاتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان سب سے بچوں کا Conceptual Learning بہتر ہو رہا ہے؟ کیا وہ واقعی وہ علم حاصل کر رہے ہیں جو انہیں عملی زندگی میں کامیاب بنا سکے؟

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں زیادہ تر بچے Ratta System کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں Short Syllabus دیا جاتا ہے، انہیں رٹا لگوایا جاتا ہے تاکہ وہ امتحان میں اچھے Grades حاصل کر سکیں، مگر جب وہ کسی Competitive Exam میں بیٹھتے ہیں، یا عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں، تو انہیں اپنی کمزوریوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے زیادہ تر طلبہ اعلیٰ تعلیم کے بعد بھی بے روزگار رہ جاتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس اصل Skills نہیں ہوتیں، صرف Degrees ہوتی ہیں۔

یہ مسئلہ صرف بچوں یا اسکولوں کا نہیں، بلکہ پورے معاشرے کا ہے۔ اگر ہم غور کریں تو پاکستان میں تقریباً ہر گھر کے بچے اسکول جا رہے ہیں، لیکن جب ان کا تعلیمی معیار دیکھا جاتا ہے، تو صرف 20 سے 40 بچے ہی واقعی Educated نظر آتے ہیں، جبکہ باقی سب صرف کلاس سے کلاس میں Promote ہو رہے ہوتے ہیں۔ اگر اسکول میں پڑھائی واقعی معیاری ہوتی، تو ہر بچہ کامیاب ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔

جب یہی بچے Bise Lahore Board کے امتحانات میں شرکت کرتے ہیں، تو ہزاروں کی تعداد میں طلبہ Appear ہوتے ہیں، لیکن کامیاب ہونے والوں کی تعداد چند سو میں ہوتی ہے اور جو بہترین Grades حاصل کرتے ہیں، وہ تو صرف انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے اسکولز بچوں کو صرف ایک خاص درجے تک پہنچانے کا کام کر رہے ہیں، مگر ان کے Concepts کو مضبوط نہیں کر رہے۔

یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ Investers کی تعلیم کے شعبے میں مداخلت ہے۔ وہ تعلیم کو کاروبار سمجھ کر Marketing Strategies استعمال کرتے ہیں، جس میں والدین کو مختلف Offers دے کر اپنی طرف متوجہ کیا جاتا ہے۔ جیسے Free Books، Free Uniforms، Free Admission اور دیگر مراعات۔ ان سب چیزوں کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ والدین کو فری چیزوں کی طرف متوجہ کرکے بچوں کو ان کے اسکول میں داخل کرایا جائے۔ والدین بھی ان سہولیات کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں اور اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ ان اسکولوں میں تعلیم کا معیار کیسا ہے۔

The Educationist اور Investor کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے کہ Investor صرف کاروبار کرتا ہے، جبکہ The Educationist بچوں کی ذہنی نشوونما پر کام کرتا ہے۔ Investor کو بس زیادہ سے زیادہ داخلے چاہیے ہوتے ہیں تاکہ اس کا منافع بڑھے، جبکہ The Educationist کو طلبہ کی حقیقی تعلیمی ترقی کی فکر ہوتی ہے۔

اگر ہم دیکھیں تو Investors کی ملکیت میں چلنے والے اسکولوں میں بچوں کی Individual Profiles تک نہیں بنائی جاتیں۔ ان کے Strengths and Weaknesses پر کوئی کام نہیں ہوتا اور سب سے زیادہ نقصان اس وقت ہوتا ہے جب والدین کو ان کے بچوں کی اصل تعلیمی حالت سے بے خبر رکھا جاتا ہے۔ والدین سمجھتے ہیں کہ ان کا بچہ بہت اچھا کر رہا ہے، کیونکہ Report Cards پر اچھے نمبر لکھے ہوتے ہیں، مگر حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ جب یہی بچے اعلیٰ تعلیم یا کسی مشکل امتحان میں بیٹھتے ہیں، تو انہیں اپنی کمزوریاں سمجھ آتی ہیں، مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

اسکولوں میں Self-Made Results بنانے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ طلبہ کی اصل تعلیمی حیثیت والدین سے چھپائی جاتی ہے۔ Grade 8 تک تو ہر بچہ پوزیشن ہولڈر بنا دیا جاتا ہے، لیکن جیسے ہی وہ Bise Lahore Board کے Exams میں بیٹھتا ہے، حقیقت کھل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں طلبہ Appear ہوتے ہیں مگر Pass ہونے والے بہت کم ہوتے ہیں اور اعلیٰ Grades لینے والے تو نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اصل تعلیم کیا ہے۔ تعلیم کا مطلب صرف امتحانات میں کامیابی نہیں، بلکہ بچوں کی شخصیت اور ذہنی صلاحیتوں کو بہتر بنانا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بچوں کو Ratta System سے نکال کر Conceptual Learning کی طرف لے کر آئیں۔

The Educationist ہمیشہ بچوں کی اصل بہتری کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ کوئی Fake Offers نہیں دیتا، بلکہ کمزور بچوں کے لیے اضافی وقت دیتا ہے، ان کے ساتھ زیادہ محنت کرتا ہے اور انہیں ان کی کمزوریوں پر قابو پانے میں مدد دیتا ہے۔ یہی اصل تعلیم ہے۔ ایک Investor اسکول کے باہر خوبصورت بورڈ لگاتا ہے، جس پر بڑے بڑے دعوے ہوتے ہیں، مگر The Educationist وہی دعوے کلاس میں پورے کرتا ہے۔

والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اسکول کی بڑی عمارتوں، ایئر کنڈیشنڈ کمروں اور دیگر Facilities کے دھوکے میں نہ آئیں۔ یہ تمام چیزیں وہیں رہ جانی ہیں، مگر بچے ان اسکولوں سے جو کچھ لے کر نکلیں گے، وہ ان کے پورے مستقبل کا تعین کرے گا۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کو ایک حقیقی تعلیمی ماحول دے رہے ہیں یا صرف دکھاوے کی تعلیم میں ڈال رہے ہیں۔

ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں حقیقی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے تعلیمی ادارے بنانے ہوں گے جہاں بچوں کو اصل میں سکھایا جائے، ان کی Concepts کو مضبوط کیا جائے اور انہیں عملی زندگی کے لیے تیار کیا جائے۔

اگر ہم نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا، تو ہمارے پاس صرف ڈگری یافتہ مگر غیر ہنر مند افراد کی ایک بڑی تعداد ہوگی، جو کسی بھی ملک کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم تعلیم کو کاروبار کے بجائے ایک مشن سمجھیں اور صرف ان تعلیمی اداروں پر اعتماد کریں جو حقیقی معنوں میں بچوں کو Educated بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

About Adeel Ilyas

Adeel Ilyas is an ex-Pakistani formal cricketer and the owner of Al-Falaq International Schools. He is a social expert and a professor of English literature. His columns and articles focus on personal development, education, and community service, offering unique insights from his diverse experiences.

Check Also

Zindagi Badal Chuki Hai

By Syed Mehdi Bukhari