Wednesday, 23 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Aalu Gobhi Ka Ishq Aur Iqbal Ka Shaheen (2)

Aalu Gobhi Ka Ishq Aur Iqbal Ka Shaheen (2)

آلو گوبھی کا عشق اور اقبال کا شاہین (2)

تحقیقات سے منکشف ہوا کہ یہ کارنامہ بھابھی کا نہیں بلکہ جنابِ خود ساختہ شیف دوست کا تھا، دل چاہا کہ فوراً کچن کے دروازے پر "نو انٹری برائے دوست محترم" کا بورڈ ٹانگ دیا جائے اور ساتھ ہی ایک صوتی اعلان ہو "خبردار! یہ آدمی کھانے پکانے کی نہیں، صرف کھانے کی مخلوق ہے"، دوسرا نوالہ چکھنے تک میں تہیہ کر چکا تھا کہ "آلو گوبھی کا شاندار جنازہ نکالنے پر دوست کے ہاتھ قلم کر دیئے جائیں "، تیسرے نوالے پر منہ سے صرف "انا للہ" نکلا، دل چاہا کہ شیف کی عزت افزائی کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق نہ کی جائے بلکہ شریعتِ آلو گوبھی کے مطابق کوڑے مارے جائیں۔

چوتھے نوالے بعد اس کی پیٹھ پر سو کوڑے لگوانے کا پلان مرتب کر چکا تھا، پانچویں لقمے پر اس کا منہ کالا کرکے گدھے پر بٹھانا کنفرم کر چکا تھا، کچھ دیر بعد جب کھیر کی پلیٹ سامنے آئی اور میرے غصے کی بھاپ نکلی تو دل نے کہا، "چلو، اس شودے کی نیت نیک تھی، ہاتھ تھوڑے کچے تھے" اور مشہور محاورہ یاد آ گیا، "بندر کیا جانے ادرک کا سُواد"، قصہ مختصر اب تو ہمارا یقین کامل ہو چکا ہے کہ اس محترم کو بیگم صرف اس لیے نصیب ہوئی کہ سعودیہ کا ویزہ پاسپورٹ میں چمک رہا تھا، خیر ہی رہی کہ اسے دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی نوبت نہیں آئی۔

برسوں کی آوارہ گردی، ریستورانوں کے چکر اور دوستوں کی ناکام ریسپیپیز آزمانے کے بعد، آخرکار ہم نے مزیدار آلو گوبھی کی گمشدہ ڈش کو ہم نے ڈھونڈ نکالا اور وہ بھی منڈی بہاؤالدین کے شاہد عمران شاہین کے فلیٹ میںِ دو کمروں کے اس فلیٹ میں علامہ اقبال کا یہ شاہین ایسے مقیم تھا جیسے صوفی بزرگ چلہ کشی میں بیٹھا ہو، حلقہ یاراں میں مختلف افواہیں پھیلی تھیں، کوئی کہتا "یہ بندہ ضرور کیمیا گری سیکھ رہا ہے"، کچھ حسرت زدہ بولتے "محبوبہ نے دل توڑا ہے، تبھی دنیا سے منہ موڑ لیا" اور کچھ تو اسے چھوٹی اور بڑی اے بی سی یاد کرنے میں مصروف سمجھتے تھے، کسی نے افواہ اڑا دی کہ نئے سال کا قمری کیلنڈر لکھ رہا ہے۔

بہرحال آہیں وہ بہت ٹھنڈی بھرتا تھا جس سے فلیٹ کے ڈرائنگ روم کا درجہ حرارت اکثر و بیشتر سرد رہتا تھا کہ اگر فریزر کی غیر موجودگی میں بھی دودھ خراب ہونے کا خطرہ نہ تھا، ایک آدھ مرتبہ اس نے دنیا کی بے ثباتی سے منہ موڑ کر جہاد کشمیر و فلسطین کا پلان بنایا لیکن پھر کسی سیانے نے بتایا کہ بارڈر بند ہے، بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ سوشل میڈیائی متاثرین کی ہوبہو عملی تصویر بنا رہتا تھا، چند دن یہ افواہ بھی گرم رہی کہ عمران خان کی حکومت پر عدم اعتماد کا صدمہ اس نے دل پر لے رکھا ہے، جب عمران خان کو جیل کی سزا ملی تب چند دن شاہد نے کھانا پینا چھوڑ کر دیوان غالب سے رجوع کر لیا تھا۔

دوستوں کے ہفتہ وار اجتماع میں جب تیسرا جمعہ بھی مرزا عمران سجاد کے جادوئی ہاتھوں سے بنی شنواری کڑاہی سے شکم سیر ہوئے تو اجتماعی ضمیر نے دھیرے سے سرگوشی کی "حضور، اب کچھ سبزیاں بھی ہو جائیں! " میری طرف سے آلو گوبھی کی فرمائش ہوئی ہی تھی کہ مرزا نے فوراً شاہد کی تعریف میں ایسا قصیدہ سنایا کہ زمین کو آسمان سے یکجا کر دیا اور مجھے گمان ہوا کہ یا تو مرزا نے شاہد سے قرض لینا ہے یا شاہد نے پہلے ہی قسطیں دینا شروع کر دی ہیں۔

شاہد کے ہاتھ کے بنے انڈے، آلو اور پیاز میں چکھ چکا تھا اور قسم لے لو، ذائقہ ایسا کہ دل چاہے پلیٹ چاٹ لی جائے، آئل کم، مصالحے ہلکے، جیسے غذا نہیں بلکہ معدے کی مالش ہو رہی ہو، چند لقمے کھا کر اندازہ ہوگیا کہ یہ بندہ صرف کھانا نہیں پکاتا، جذبات بھونتا ہے۔

ہر بار نئی فلم کی ریلیز کی طرح فرمائش کرتے اور شاہد ہر بار نئی دلہن کی طرح شرما کر نظریں چرا لیتا، ایک آدھ مرتبہ میں اسے سُچا کام چور بھی سمجھا تھا، آخر محفل کے سارے دانشوروں نے اجتماعی فتویٰ جاری کیا "آلو گوبھی لا کر دو! " ہم فوراً مارکیٹ گئے، سبزی خریدی اور شاہد کے سپرد کردی اور پھر شروع ہوا کٹائی، مصالحوں، چھینٹوں، بھونائی اور دم کی ایسی شاعری کہ لگتا تھا کچن نہیں، کوئی کلاسیکل محفل ہے، شاہد نے کچن میں ایسا جادو چلایا کہ خوشبو کے قافلے ہر کمرے سے گزرتے ہوئے اعلان کرتے جا رہے تھے "بادشاہ سلامت کھانا پکا رہے ہیں "، لیکن ہمیں تو بس آلو گوبھی سے غرض تھی اور وہ دن آن پہنچا تھا جب کچن سے خوشبو نکل کر فلیٹ کے ٹھنڈے ڈرائنگ روم میں آئی، خوشبو ناک میں داخل ہوئی، دل کو چھوا اور بھوک کو جگا دیا، دل نے گواہی دی "یہی ہے وہ لمحہ، جس کے لیے ہم نے کچنوں کے در در دھکے کھائے" اور جب پہلا نوالہ منہ میں گیا تو جو خیال آیا، وہ کچھ یوں تھا کہ یہ صرف آلو گوبھی نہیں، یہ زندگی کا وہ سادہ مگر ناقابلِ فراموش لطف ہے جو صرف کسی شاہین کے ہاتھوں ممکن ہے اور ہمارے ذائقے کی تلاش سکون پا چکی تھی، اگر اقبال زندہ ہوتے تو شاہد عمران شاہین کو اپنے شاہینوں کا سردار مقرر کرنے میں فخر محسوس کرتے لیکن بہت زیادہ سونے باعث گوشمالی بھی کرتے۔

چند دن پہلے مصروفیت باعث وقت کا ہوش نہ رہا، بتی جلتی دیکھ کر ہمارے محلے کا جگنو، شاہد، اچانک نمودار ہوا جیسے رات کے اندھیرے میں کوئی نیکی چمک اٹھے! کام ختم ہوا تو غیر تناول شدہ ڈنر یاد آیا، شاہد کو کھانے کا پوچھا تو اس نے سادگی سے اعلان کیا "میں کھا چکا ہوں"۔ اب گئے بازار کی راہ پر اور قسمت ہمیں لے گئی ایک افغانی ہوٹل کے در پر، بنگالی شیف دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا کیونکہ یہ لوگ ہر سبزی کچے پانی والی پکاتے ہیں، پٹھان شیف حضرات بھی سبزی ٹھیک سے نہیں پکا سکتے، ان کے بیشتر کھانے لمبے شوربے پر مشتمل ہوتے ہیں اور کل ملا کر یہی ان کی واحد "سپیشلٹی" ہے۔

کھانے والے سیکشن میں آلو گوبھی دیکھ کر میری رال ٹپکی، "چلو آج تمہیں آزماتے ہیں "، دو عدد پارسل کروا کر خوشی خوشی گھر لوٹے، شاہد نے "ریڈ کارپٹ" ڈراپ دیا اور رخصت ہوگیا، جب ڈبہ کھولا، تو آلو گوبھی کی خوشبو نہیں، فلسفہ نکل آیا، کچھ ایسا احساس ہوا جیسے کھانے کی چیز نہیں بلکہ کوئی معمہ رکھا ہو، گوبھی کہیں کہیں اور آلو ہر جگہ، یہ تو محاورے والا ہاتھ ہوگیا تھا، مگر حالات کے مارے اور فریج کی ویرانی دیکھ کر حوصلہ باندھا اور معدہ قربان کر دیا، اگلی صبح پیٹ نے ایسا احتجاج کیا جیسے کسی یونین کا سالانہ جلسہ ہو۔

تب دل سے یہ احساس ہوا کہ آلو گوبھی پکانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، یہ تو صرف شاہد عمران جیسے اقوالِ اقبال کے عملی نمونے نما شاہین ہی کر سکتے ہیں، باقی سب فقط ہانڈی میں چمچہ چلا سکتے ہیں لیکن دل نہیں جیت سکتے، اس سہواً غلطی کے بعد شدت سے احساس ہوا کہ کچھ کام صرف ماہرین کے سپرد کرنے چاہیئیں جیسے شاہد عمران شاہین جو آلو گوبھی کے سلطان، سرفراز اور اگر ذرا شاعرانہ کہیں تو "اقبال کے خوابوں کا دیسی شیف" ہے۔

نتیجہ: اگر روز قیامت آلو گوبھی پکانا بطور نیکی لکھا جائے تو شاہد عمران شاہین کا نیکیوں والا پلڑا بہت بھاری ہوگا، اچھا کھانا پکانا ایک فن ہے اور فن سب کے بس کا روگ نہیں، جن کے ہاتھوں میں چمچ پکڑنے کی طاقت ہو، دل میں ذائقے کی لگن اور دم میں شاہین جیسا صبر صرف وہی آلو گوبھی پکا سکتے ہیں، جو ہر بار دل کو بے اختیار کہنے پر مجبور کر دے۔

"اوئے شاہد، ایک پلیٹ اور دے دے"۔

Check Also

Retirement

By Asad Tahir Jappa