Tijarti Jang Ka Pehla Round Aur Mustaqbil Ke Imkanat
تجارتی جنگ کا پہلا راؤنڈ اور مستقبل کے امکانات

جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ ٹرمپ کی ٹیرف جنگ کا اصل ہدف چین ہے۔ اس جنگ کے آغاز ہی میں ٹرمپ نے اپنے بڑے فیصلے کو واپس لیتے ہوئے غیر حقیقت پسندانہ ٹیرف کو نوے دن کے لیے معطل کر دیا ہے اور کئی دیگر فیصلوں میں اسے رد و بدل کرنا پڑا ہے۔ لیکن دس فیصد ٹیرف تو سارے ممالک پر عائد ہے جبکہ میکسیکو اور کینیڈا پر ٹیرف کی شرح بھی کافی زیادہ ہے۔
اس سے ایک امر کا اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ یہ فیصلے غور و فکر کی بجائے نخوت و تکبر میں کیے گئے تھے اور نتائج کا درست اندازہ نہیں لگایا گیا تھا۔ نتائج کی سنگینی کا اندازہ ہوتے ہی ٹیرف واپس لے لیے گئے جبکہ چین پر ٹیرف مزید بڑھا دیے گئے۔ اس طرح امریکہ چین تجارتی جنگ یک بہ یک ہوگئی ہے۔ تیزی سے بدلتی صورت حال سے ایک نتیجہ ضرور سامنے آتا ہے کہ امریکہ چین کو حسب خواہش نقصان پہنچانے اور جھکانے میں فی الحال کامیاب نہیں ہو سکا ہے اور نقصان باہمی اور عالمی ہوا ہے۔
ایپل اور انوڈیا جیسی کارپوریشنوں کے دباؤ کی وجہ سے صدر ٹرمپ کو ایک قدم اور پیچھے ہٹنا پڑا اور اس نے چین سے موبائل فون، الیکٹرانکس اور کمپیوٹر کی درآمدات کو ٹیرف سے استثنا دے دیا ہے۔ تازہ ترین حال یہ ہے کہ امریکی ٹیرف پالیسی ایک سرکس میں تبدیل ہوگئی ہے۔ غالبؔ کا شعر حسب حالاتِ امریکہ ہے:
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
اس وقت بین الاقوامی مالیاتی اور تجارتی نظام زبردست بے یقینی کی گرفت میں ہے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ خبر یہ بھی سننے میں آئی ہے کہ ٹیرف پالیسی کے ذریعے عالمی معاشی نظام پر جو حملہ کیا گیا تھا اور تجارتی معاملات کو دو طرفہ بنیادوں پر طے کرنے کا جو اعلان ہوا تھا اس کے پس پردہ صدر ٹرمپ کی اپنی کمپنی نے انیس ممالک کے ساتھ ریئل اسٹیٹ کے معاہدے کرتے ہوئے اپنے ذاتی مفاد کو زبردست طریقے سے آگے بڑھایا ہے۔
اگرچہ امریکی فیصلوں سے خود امریکہ اور عالمی معاشی نظام کو زبردست دھچکا لگا ہے لیکن چین کو لڑھکانے کا اصل مقصد پورا نہیں ہو سکا ہے۔ پہلا راؤنڈ برابر نقصان دہ رہا ہے اور اب دوسرا راؤنڈ شروع ہوا ہے جو میرے خیال میں زیادہ خطرناک اور بھیانک نتائج کا باعث ہوگا۔ اس تجارتی جنگ میں وقت چین کے ساتھ ہے اور اس کے پاس ابھی بہت سے داؤ باقی ہیں۔ امریکہ کے پاس چونکہ بہت زیادہ عسکری طاقت ہے اس لیے پالیسی کا خاتمہ ہوگیا ہے اور صرف دھونس اور دھاندلی باقی رہ گئی ہے۔ ایرانی نیوکلیر معاہدے اور غزہ جنگ بندی کی طرح، ٹیرف میں بھی بے شمار بین الاقوامی معاہدات کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔ جو چیزیں سفارت کاری سے طے یا حل ہوتی تھیں اب دھمکی یا ڈنڈے سے طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میکسیکو بارڈر تو باقاعدہ جنگ کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ چینی معیشت کا سب سے کمزور پہلو توانائی کا ہے اور اس کا بہت بھاری انحصار ایرانی تیل پر ہے۔ ایران کے خلاف اسرائیل اکیلا جنگ لڑ سکتا ہے اور نہ جیت سکتا ہے، اس لیے قدیمی منصوبے کے باوجود اب تک اس نے ایران کے خلاف کوئی جنگ نہیں چھیڑی۔ وہ امریکہ کو اس جنگ میں بھرتی کرنے میں کامیاب بھی نہیں ہوا ہے۔ تجارتی جنگ میں فوری ناکامی کی وجہ سے اب ایران سے جنگ کرنے میں امریکی مفاد بھی شامل ہوگیا ہے۔ امریکہ مشرق وسطیٰ میں کئی جنگیں اسرائیلی مفاد کے لیے لڑ چکا ہے لیکن ایران کے خلاف جنگی کاروائی سے امریکہ ابھی تک متامل تھا۔ تجارتی جنگ سے بگڑتی صورت حال میں ایران کے خلاف جنگ اب امریکہ اور اسرائیل دونوں کے مفاد کا تقاضا بنتی معلوم ہو رہی ہے اور مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ ایران کے خلاف جنگ سے چین کے اس کمزور پہلو پر کاری ضرب لگائی جا سکتی ہے اور حالات کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کیا رخ اختیار کریں گے۔
چین سے ابھرتے چیلنج کو روکنے کے لیے امریکہ نے اولاً تجارتی پابندیوں کا حربہ اختیار کیا تھا جو زیادہ کامیاب نہیں ہوا۔ اب ٹیرف کے ذریعے سے چین کا قلع قمع کرنے کا منصوبہ ہے جس کے نتائج بھی پابندیوں جیسے ہی نکلیں گے۔ تجارتی پابندیاں طاقت اور کنٹرول کا اظہار ہوتی ہیں جبکہ ٹیرف ایک دفاعی حکمت عملی ہے جو رد عمل کو ظاہر کرتی ہے۔ پابندیاں اور ٹیرف ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کو پابندیوں اور ٹیرف کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ہوگی اور اسے چین کے خلاف ویسی ہی جنگ چھیڑنی پڑے گی جیسی کہ اس نے روس کے خلاف چھیڑ رکھی ہے اور اس نئی جنگ کا میدان یقینی طور پر مشرق وسطیٰ ہوگا۔ چین کے خلاف براہ راست جنگ کا مطلب تیسری عالمی جنگ اور دنیا کا خاتمہ ہوگا، اس لیے بالواسطہ جنگ کو اختیار کیا جائے گا۔
تیزی سے بدلتے عالمی حالات میں امریکہ کے سامنے اس وقت چین، روس اور ایران کا اتحاد ہے اور ایران پر حملے کا اندیشہ بہت قوی ہو چکا ہے۔ چین کے خلاف ٹیرف جنگ، اصل جنگ کا نقطۂ آغاز ثابت ہوگا جو ایسی جگہوں پر لڑی جائے گی جو چین کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر چین کے لیے تیل کی سپلائی کو برہم کر دیا جائے اور تنگنائے ملاکا کو بند کر دیا جائے تو چین کو بڑی زک پہنچائی جا سکتی ہے۔ ایران پر حملے کے ساتھ ہی تائیوان پر چینی حملے کا امکان بہت بڑھ جائے گا۔ تائیوان پر چینی قبضے سے امریکہ اور یورپ کو اس سے بھی بڑا نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے جس کا نشانہ چین بنے گا کیونکہ تائیوان اس وقت دنیا کا سب سے بڑا چپ (chip) میکر ہے اور مغربی صنعتوں کا انحصار اسی پر ہے۔ اس حوالے سے امریکہ اور یورپ کے لیے تائیوان کی اہمیت ویسی ہی ہے جیسی تیل کے حوالے سے چین کے لیے ایران کی ہے۔
اس وقت امریکی سیاسی اور معاشی پالیسی کے چہرے سے تہذیب، ترقی اور سفارت کاری کا نقاب اتر گیا ہے۔ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں یورپی اور امریکی طاقتیں اپنے جنگی بحری جہاز لے کر دنیا بھر کے ساحلوں پر پہنچتی تھیں اور وہاں کی منڈیوں کو بالجبر کھولنے کا مطالبہ کرتی تھیں۔ موجودہ عالمی معاشی نظام استعمار کی انھیں پالیسیوں کے نتیجے میں قائم ہوا تھا اور اس کی ہیئت ایسی تھی کہ اس سے صرف مغرب ہی فائدہ اٹھا سکتا تھا اور محکوم اقوام کے لیے اس میں سوائے خسارے کے اور کچھ نہیں تھا۔ اب اسی معاشی نظام میں رہتے ہوئے چین نے ترقی کی ہے جو مغرب کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ یہ کام پہلے جاپان کر چکا ہے اور اس کا جو حشر ہوا وہ بھی سب کے علم میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ چین کو ایک اور جاپان بنانے میں کامیاب ہو سکے گا یا نہیں؟
امریکی طاقت، معاشی ترقی اور ٹکنالوجیائی برتری کو چین کی تیز رفتار ترقی سے بہت بڑا چیلنج درپیش ہے۔ اس نئی چنوتی سے نمٹنے کے لیے امریکی سرمائے اور طاقت کی ہیئت اور اس کے جوازی نظریات میں بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ یعنی نئی امریکی انتظامیہ طاقت اور سرمائے کی نئی ہیئت اور نئے نظریات کی حامل ہے۔ جس طرح سے عالمی معاشی نظام میں اودھم مچا ہوا ہے، بعینہٖ داخلی طور پر صورت حال اس سے کہیں زیادہ سیمابی ہے۔ امریکی سیاسی طاقت اس وقت مکمل تشکیل نو کے عمل سے گزر رہی ہے جس کے مظاہر ناگزیر طور پر داخلی اور خارجی سطح پر ظاہر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ایک صدی سے نیولبرلزم کے تحت بننے والی طاقت اور سرمائے کی داخلی اور خارجی ہیئتیں بہت تیزی سے منہدم کی جا رہی ہیں۔
سیاسی طاقت تشکیل نو کی طرف اس وقت مائل ہوتی ہے جب اس کی سیاسی اور معاشی اقدار اور ساختوں کو درپیش خطرات کا ادراک بہت گہرا اور یقینی ہو جائے اور اس کے "من شاہِ جہانم" کے دعوے پر سوالیہ نشان کھڑے ہو جائیں۔ زائنسٹ ایوین جیلی کل مذہبیت اور نسلی فسطائیت نے امریکی تہذیب سے نیولبرلزم کو نکال باہر کیا ہے اور امریکی طاقت داخلی اور خارجی طور پر اپنی ہیئت کو نہایت تیزی سے بدل رہی ہے۔
امریکی داخلی اور عالمی نظام تبدیل نہیں ہو رہا، بلکہ دھڑام ہو رہا ہے اور ہر جگہ نئی امریکی طاقت اپنے پنجے گاڑتی جاتی ہے۔ اگر باقی سب چیزوں کو نظرانداز کرکے امریکی نظام اور نظریے میں ظہور پذیر تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کی جائے تو یہ جاننا مشکل نہیں رہتا کہ اتنے بڑے پیمانے اور اتنی گہرائی میں آنے والا بھونچال عالمی سطح پر نتیجہ خیز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس وقت دنیا قیامت کی رہ گزر میں ہے۔