Molvi Aur Muashra
مولوی اور معاشرہ
ہم لفظ مولوی بطور تنقید استعمال کرتے ہیں ہمیں کوئی بھی شخص کوئی اچھی بات کہہ دے ہم فوراََ یہ لفظ بولتے ہیں "آیا بڑا مولوی"۔ مولوی ہوتا کیا ہے؟ ہمارا معاشرہ کسے مولوی سمجھتا ہے؟ آج کل ہمارے معاشرے میں ہر دڑاھی والے کو مولوی کہا جاتا ہےاور آپ کو مختلف قسم کے مولوی ملے گئے مثلاََ موسمی مولوی جب رمضان قریب ہوگا وہ اپنا سارا وقت مسجد میں گزاریں گےاور دڑاھی بڑھا لیں گے اور جیسے ہی عید کے دن آئیں گئے واپس اپنی اصلی حالت پر پہنچ جائیں گئے۔
مولویوں کی دوسری قسم ہے اداکاری مولوی جو مہنگے مہنگے جوڑے پہن کر رمضان کے پروگرامز میں آتے ہیں اور نیکیوں کی تلقین کرتے ہیں اور پھر سارا سال عشق و محبت کے ڈراموں میں معشوق بنے ہوتے ہیں مثلاََ دانش تیمور۔ اس کے بعد ہم آتے ہیں ان مولویوں کی طرف جو ایک سو بیس کی سپیڈ سے تروایح پڑھاتے ہیں اور جب یہ کسی کے بچے کو گھر جا کر قرآن پڑھائیں تو پانچ منٹ کے اندر اندر سبق دے کر ایسے بھاگے گئے جیسے چوہا بلی کو دیکھ کر بھاگتا ہے۔
ابھی سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ ابھی تو تنگ نظر مولویوں کا تذکرہ ہی نہیں ہوا جو اپنی بیٹوں کو پردے کے نام پر اتنا لپیٹ دیتے ہیں کہ انہیں تعلیم سے محروم کر دیتے ہیں۔ میں ادھر پردے کو کرنا معیوب نہیں کہہ رہی۔ ہمارے دین میں اتنی سختی نہیں ہم نے دین کو اپنے لیے خود مشکل بنا لیا ہے۔ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔
اگلی قسم مولویوں کی بہت خطرناک ہے یہ دراصل وہ مولوی ہیں جو ہر وقت دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگانے کے لیے تیار بیٹھے رہتے ہیں اپنے مسلک کے رنگ میں اتنا رنگے ہوگے انہیں سامنے والا کافر نظر آئے گا۔ بظاہر تو وہ تلوار سے سر قلم نہیں کر پاتے لیکن ان کے الفاظ بجلی کی کڑک اور آتش فشاں لاوے اور زمینی زلزلے جیسے ہوں گے جو سامنے والے کی دھجیاں اڑا دیں۔
ہم آ گئے بڑھتے ہیں ان مولویوں کی طرف جو چار شادیاں خود پر لازم و ملزوم سمجھتے ہیں اللہ نے نماز فرض کی تھی لیکن ان پر شاید چار شادیاں کرنا فرض ہوئی ہیں اور دوسروں کو چار شادیوں کی تلقین کرتے رہتے ہیں ان کی ویڈیوز کے نیچے لکھا ہوا ہوتا ہے "ویڈیو شیئر کرنے میں کنجوسی نا کریں" اس قسم کے مولویوں کو اکثر شادی شدہ خواتین اپنا دشمن سمجھتی ہیں۔ اگر کوئی مرد ان کی باتوں میں آکر دوسری شادی کر لے وہ نا پہلی بیوی کا رہتا ہے اور نہ دوسری کا کسی گہری دلدل میں پھنس جاتا ہے جس سے نکلنا نا ممکن ہے۔
شادی کرنا سنت رسول اللہ ﷺ ہے اور یہ سنت پوری کریں اور اگر انصاف کر سکیں تو ہی دوسری یا تیسری شادی کریں کسی کی بیٹی کی زندگی برباد کرکے اذیت دے کر نہیں۔ کسی باپ نے آپ کو اپنا جگر کا ٹکڑا دیا ہو تو پھر زیادتی نہ کریں اور اس کے حقوق فرائض کا خیال رکھیں ذمہ داریوں سے بھاگ کر بےرخی اختیار نہ کریں کیونکہ اسلام عدل کا دین ہے۔ اسی دین اسلام نے عورت کو عزت اور بلند مقام و مرتبہ دیا ہے۔
ہم آگے بڑھتے ہیں ان مولویوں کی طرف جو پھول جھاڑو سے لوگوں کے جن نکالتے ہیں اور شوہروں کو مٹھی میں کرنے اور ساس کو گھر سے باہر نکالنے کے لیے تعویذ دیتے ہیں اس قسم کے مولوی شادی شدہ خواتین کو بہت پسند ہوتے ہیں کیونکہ فتنہ گھر میں نہیں ہوتا جتنا ان کے دل و دماغ میں ہوتا ہے۔ اس قسم کے مولوی کاروباری ہوتے ہیں کبھی ایک دفعہ پھول جھاڑو کی مار کھانے سے کسی کے اندر کا جن نکل گیا تو بس ان کے چرچے ہی چرچے ہوگے۔ تعویذ کام کرئے نا کرئے لیکن ان کی یہ کاروباری تجویز بہت کام آتی ہے اور عوام ان پر اندھا دھن دولت لوٹاتی ہے۔
اب رہ جاتے ہیں وہ مولوی جو مدرسے میں مسلسل چار سال دال چاول کھا کر فارغ التحصیل ہونے کے بعد کسی مدرسے میں پڑھاتے ہیں یا کسی سکول وغیرہ میں اور ہر طرح کی خواتین کو "بہن جی" اور ہر مرد کو "بھائی جی" کہیں اور اتنا زیادہ کہیں گئے کہ آپ کو یقین ہونے لگے گا آپ کا حقیقی نام جو پیدائش کے وقت آپ کے والدین نے رکھا تھا وہ شاید غلطی سے رکھا دراصل آپ کا اصلی نام "بہن جی" ہی ہے۔ بہن بھائی کے رشتے میں بھائی کو یہ بار بار ثابت نہیں کرنا پڑتا اور یقین نہیں دلانا پڑتا کہ وہ میری بہن ہے آپ کے بولنے کا انداز، آپ کی جھکی ہوئی نگاہیں بتا دیتی ہیں یہ شخص آپ کی عزت کرتا ہے۔ لیکن ہر تصویر کے دو پہلو ہوتے ہیں تصویر کو صرف ایک آنکھ سے نہیں دونوں آنکھوں سے دیکھنا چاہیے۔
ہم اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں لیکن ہم اندر ہی اندر مغربی معاشرے کو پسند کرتے ہیں اور ان کے لباس، ان کے تہوار کو پسند کرتے ہیں اور اپنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ بھی ان مولوی حضرات کے ساتھ کوئی اتنا اچھا سکوک نہیں کرتا۔ ہم تروایح کے لیے اسی مسجد جانا پسند کرتے ہیں جدھر مولوی صاحب جلدی سے تروایح پڑھائیں جس کی وجہ سے انہیں جلدی جلدی قرآن پڑھنا پڑتا ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں ہم انہیں پیٹی سے قدیم زمانے کا سوٹ تحفے میں دیتے ہیں جس سے فرنیل کی بدبو آرہی ہو جس کا ڈائزین جلال الدین اکبر بادشاہ کے زمانے کا ہو۔ عید کے لیے چاہے اپنے لیے پچاس ہزار کا مہنگا جوڑا ہی کیوں نا خریدا ہو۔ پورا رمضان کا مہینہ آپ اپنے بچے کو تروایح پڑھانے کے لیے لے کر جائیں یا نا جائیں بچوں کا مسجد میں آخری تروایح والے دن اتنا رش ہوتا ہے کیونکہ مسجد میں میٹھائی ملتی ہے۔
اسکول میں اسی استاد کو پسند کیا جاتا ہے جس کے بال کھلے ہوں، میک آپ کا ہر رنگ چہرے پر لگاہو اور برائے نام ڈوبٹا لیا ہو اور زبان سے انگریزی ہی نکلے جب بھی نکلے کیونکہ ہم آج بھی انگریزوں کی ذہنی غلامی کا شکار ہیں۔ انہی مولویوں کی وجہ سے معاشرے میں ابھی بھی کچھ تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو اسلام اور شریعت کو فالو کرتے ہیں۔ علاؤہ ازیں یہ ہی مولوی حضرات ہیں جو وقتا فوقتاً ہمیں خاص راتوں کا خاص دنوں کا احساس دلاتے ہیں اور مسجد میں رونق لگائے رکھتے ہیں کبھی تلاوت قرآن پاک سے، کبھی نعت سے جس سے سوئی اور تھکی ہوئی عوام کو معلوم ہوجاتا ہے آج شب معراج کی رات ہے۔
یہ ہی وہ مولوی ہیں جو دین کی تبلیغ کرنے کے لیے اپنے اہل خانہ سے دور میلوں کا سفر طے کرتے ہیں، راتوں میں ٹی وی پروگرامز کرتے ہیں تاکہ غفلت میں پڑے معاشرے کو رسول اللہ کے اسوۃ کے بارے میں معلوم ہوسکے۔ یہ ہی وہ مولوی ہیں جو نڈر ہو کر حکمرانوں کے سامنے انصاف کی بات کرتے ہیں فلسطینیوں کا درد محسوس کرتے ہیں یہ ہی وہ مولوی ہیں جو سخت گرمی میں بھی لبیک یارسول اللہ، نعرہ تکبیر، فلسطین فلسطین کے نعرے لگاتے ہیں روتے ہیں اور ان کی امداد کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ جو مولوی گھر بچوں کو پڑھانے آتے ہیں انہیں لوگ پانی پوچھنا بھی گوارا نہیں کرتے اور معاوضہ صفائی والی سے بھی کم دیتے ہیں اور مسجد میں امام کی تنخواہ بھی بہت کم ہوتی ہے اور اگر وہ تنخواہ میں اضافے کی بات کریں تو امام صاحب آپ چلے جائیں کوئی اور آجائے گا عموماََ یہ ہی کہا جاتا ہے۔
درحقیقت یہ ہی امام پانی کا ایک گھونٹ حلق سے اتارنے کے بعد سب کا روزہ کھلوانے کے لیے اللہ اکبر کی صدا دیتا ہے تا کہ عوام پکوڑے اور سموسے تسلی سے کھا سکے۔ مولوی بھی انسان ہوتے ہیں اگر ان سے غلطی ہوجائے تو ہمارا سماج انہیں تنقید کا نشانہ اس طرح بناتا ہے جیسے ساس بہو کو بدمزا کھانا بننا پر تنقید کا نشانہ بناتی ہے بلکہ تضحیک کہنا بہتر ہوگا۔ آئندہ کی زندگی ان کے لیے جینا مشکل ہوجاتی ہے۔ یہ ہی وہ مولوی ہیں جو عزت سے تمام مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں اور بہن یا ماں جی ہر عمر کا لحاظ رکھ کر بولتے ہیں۔
رہی بات جلالی مولویوں کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم سامنے والے کو سنیں اور دلیل سے بات کریں سامنے والے کو کاٹنے کو نہ دوڑیں۔ ہر پھول جھاڑو والے مولوی کو ضروری نہیں روحانی علم معلوم ہو اس زمین پر ایسا ہستیاں موجود ہیں جو نیک ہیں قرآن اور اس کے رسول کی سنت کی طرف بلاتی ہیں اور اس کی بیعت کریں جس پر آپ کا دل مطمئن ہو صاف نیت کے ساتھ۔ اب حقیقی مولوی کی طرف آتے ہیں۔
مولوی لفظ مولی سے نکلا ہے اشرف تھانوی کے نزدیک "مولوی وہ ہوتا ہے جو مولی ہو یعنی اللہ والا ہو، علم دین میں مہارت رکھتا ہو، پرہیزگار ہو، جس کے دل میں اللہ کا تقوی بھی ہو اور اخلاق حمیدہ رکھتا ہو"۔ معلوم ہوا جس میں یہ تمام صفات موجود ہوگئیں وہی مولوی ہوگا۔ ہمیں اپنا محصابہ خود کرنا چاہیے کہ کیا واقعی ہمارے اندر مولویوں والی صفات ہیں؟ کیا ہم اللہ والے ہیں؟ کیا ہم نے علم دین کا سمندر اپنے اندر انڈھل لیا ہے؟ کیا ہمارے اندر اخلاق حمیدہ والی صفات موجود ہیں کہ ہم خود کو حقیر جانیں اور دوسرے کو تکالیف نا پہنچائیں؟ کیا ہمارے دلوں میں اللہ کا ڈر ہے؟ ہمیں اپنا جائزہ خود لینا چاہیے۔

