Agar Rabta Na Rahe To Wapsi Ka Rasta Qudarti Tor Par Band Ho Jaata Hai
اگر رابطہ نہ رہے تو واپسی کا راستہ قدرتی طور پر بند ہو جاتا ہے

زندگی کے سفر میں سب سے زیادہ قیمتی چیز وقت کے ساتھ جڑے تعلقات اور رشتے ہوتے ہیں۔ یہ رشتے صرف خون کے نہیں ہوتے، یہ دوستی کے، محبت کے، خیال کے اور احساس کے رشتے بھی ہوتے ہیں۔ ان رشتوں کی اصل طاقت رابطے میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ جب تک دو دل، دو ذہن، یا دو روحیں ایک دوسرے سے جڑی رہتی ہیں، تب تک زندگی ایک خوبصورت سفر محسوس ہوتی ہے۔ مگر جیسے ہی خاموشی رشتوں پر غالب آتی ہے، جیسے ہی رابطہ ٹوٹتا ہے، وقت وہ دروازے بند کر دیتا ہے جن سے واپسی ممکن ہو سکتی تھی۔
رابطہ دراصل زندگی کی سانس ہے۔ یہ ایک ایسا پل ہے جو دو دلوں کو جوڑتا ہے، دو انسانوں کو قریب لاتا ہے اور دو ذہنوں کو ایک خیال میں پروتا ہے۔ جب ہم اس پل کو توڑ دیتے ہیں، اس پر سے گزرنا چھوڑ دیتے ہیں، تو رفتہ رفتہ یہ پل کمزور ہوتا جاتا ہے اور پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہ مکمل طور پر گر جاتا ہے۔ تب واپسی صرف خواہش رہ جاتی ہے، حقیقت نہیں۔
کسی وقت جو رشتہ بہت قریبی ہوتا ہے، جو شخص زندگی کا اہم حصہ ہوتا ہے، وہی وقت کے ایک موڑ پر اتنا دور ہو جاتا ہے کہ اُس کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔ باتیں کرنا، ایک دوسرے کو یاد رکھنا، ایک دوسرے کا حال پوچھنا، یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بڑی بڑی دوریوں کو ختم کر دیتی ہیں۔ مگر جب ہم اپنی انا، مصروفیت، یا بے دلی کی وجہ سے ان باتوں کو ترک کر دیتے ہیں، تو رفتہ رفتہ فاصلہ بڑھتا جاتا ہے۔
یہ فاصلہ کبھی دنوں کا ہوتا ہے، کبھی مہینوں کا اور کبھی برسوں کا۔ شروع میں یہ صرف ایک خاموشی ہوتی ہے، ایک نظرانداز، ایک دیر سے دیا گیا جواب، یا ایک نظر نہ پڑنے والا پیغام۔ مگر پھر یہ خاموشی گہری ہوتی جاتی ہے۔ دلوں میں سوال جنم لیتے ہیں، شکوے پنپنے لگتے ہیں اور ایک دوسرے کی یادیں دھندلانے لگتی ہیں اور جب یادیں دھندلی ہونے لگیں، تو سمجھ لیجیے کہ واپسی کے راستے مٹنے لگے ہیں۔
یہ فطرت کا قانون ہے کہ جو راستہ استعمال نہ کیا جائے، وہ رفتہ رفتہ بند ہو جاتا ہے۔ جیسے ریلوے ٹریک پر اگر عرصے تک ٹرین نہ گزرے تو وہاں درخت اُگ آتے ہیں، جھاڑیاں چھا جاتی ہیں اور پھر وہ ٹریک کسی اور مقصد کے لیے کارآمد نہیں رہتا۔ بالکل اسی طرح اگر کسی رشتے میں بات چیت نہ ہو، احساس نہ ہو، ملاقاتیں ختم ہو جائیں، تو وہ رشتہ مردہ ہو جاتا ہے۔ پھر چاہے جتنی بھی کوشش کر لی جائے، وہ پرانی گرمی، وہ پرانا جذبہ، وہ ابتدائی خلوص دوبارہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
رابطے کا ختم ہونا بعض اوقات جان بوجھ کر نہیں ہوتا۔ کبھی مصروفیات آڑے آتی ہیں، کبھی وقت کی کمی، کبھی حالات کی سختی، کبھی جذبات کی ٹوٹ پھوٹ۔ لیکن ان تمام وجوہات کے باوجود اگر کسی رشتے کی قدر ہو، اس کی اہمیت دل میں ہو، تو رابطہ جُڑا رہتا ہے۔ کیونکہ جب دل میں کسی کے لیے جگہ ہو، تو وقت نکال ہی لیا جاتا ہے۔ مگر اگر ہم بار بار نظرانداز کریں، ٹالیں، بہانے بنائیں، تو ایک وقت آتا ہے جب دوسرا فریق بھی مایوس ہو کر دل سے نکل جاتا ہے۔
رابطے کو زندہ رکھنا دراصل رشتے کو زندہ رکھنا ہے۔ ایک "کیسے ہو؟"، ایک "یاد آ رہی تھی"، ایک "تم ٹھیک تو ہو؟" جیسے جملے رشتوں کو پھر سے نئی جان دے سکتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا پیغام، ایک مختصر سی ملاقات، یا ایک ہلکی سی مسکراہٹ دوبارہ پل تعمیر کر سکتی ہے۔ مگر جب ہم مکمل طور پر خاموش ہو جائیں، خود کو بالکل الگ کر لیں، تو پھر وہ راستہ بند ہو جاتا ہے۔
ہم انسان اکثر اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ جو رشتے سچے ہوتے ہیں وہ خود بخود قائم رہتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر رشتہ، چاہے وہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو، وقت، توجہ اور رابطے کا طلبگار ہوتا ہے۔ اگر ہم کسی رشتے کو سچائی سے نبھانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے لیے وقت نکالنا ہوگا، اُس پر محنت کرنی ہوگی۔ صرف یہ کہنا کہ "وہ تو میرا دوست ہے، وہ تو سمجھتا ہے" کافی نہیں ہوتا۔ تعلقات صرف سمجھنے سے نہیں، نبھانے سے قائم رہتے ہیں۔
کچھ رشتے زندگی میں ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہم ختم کرنا نہیں چاہتے، مگر ان سے جُڑے نہیں رہتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وقت کے ساتھ خود بخود سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن وقت صرف اُن چیزوں کو ٹھیک کرتا ہے جن پر ہم محنت کرتے ہیں۔ بغیر رابطے کے وقت صرف دوری بڑھاتا ہے، غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے اور آخر کار رشتے کو دفن کر دیتا ہے۔
اکثر زندگی کے کسی موڑ پر ہمیں کسی پرانے دوست، کسی پرانے رشتے، یا کسی خاص انسان کی یاد آتی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ دوبارہ بات کریں، سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے۔ مگر جب رابطہ طویل عرصے کے لیے ختم ہو چکا ہو، تو دوبارہ آغاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم دل میں کئی بار سوچتے ہیں، لیکن عمل نہیں کر پاتے۔ پھر وہ لمحے، وہ مواقع بس دل میں رہ جاتے ہیں اور ہم ساری زندگی اس "کاش" کے بوجھ تلے جیتے ہیں۔
یہ "کاش میں نے پہلے رابطہ کیا ہوتا"، "کاش میں نے بات ختم نہ ہونے دی ہوتی"، "کاش میں نے انا کو ایک طرف رکھ کر اس رشتے کو بچا لیا ہوتا" یہ سب احساسات دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ کیونکہ رابطہ نہ ہونے کے بعد جو راستے بند ہوتے ہیں، وہ صرف جغرافیائی نہیں ہوتے، وہ جذباتی، روحانی اور قلبی راستے ہوتے ہیں اور ان کا بند ہو جانا انسان کو اندر سے خالی کر دیتا ہے۔
لہٰذا، اگر آپ کے دل میں کسی کے لیے محبت، اپنائیت یا دوستی کا احساس ہے تو رابطہ قائم رکھیں۔ وقت نکالیں، حال پوچھیں، ایک مسکراہٹ بھیجیں، ایک دعا دے دیں۔ کبھی کبھار ایک چھوٹا سا پیغام بھی بڑی بڑی دوریوں کو کم کر دیتا ہے۔ کیونکہ اگر رابطہ زندہ ہو، تو امید باقی رہتی ہے، مگر جب رابطہ ختم ہو جائے، تو واپسی کا راستہ صرف خواہش بن کر رہ جاتا ہے۔
ختم کرتے ہوئے بس یہی عرض ہے کہ رشتوں کو وقت دیجیے، رابطے قائم رکھیے۔ کیونکہ اگر رابطہ نہ رہے، تو واپسی کا راستہ قدرتی طور پر، ہمیشہ کے لیے، بند ہو جاتا ہے۔