Mughalitistan Aur Imran Khan, 1965 Ki Jang Aur Bhutto Ki Na Ehli (19)
مغالطستان اور عمران خان، 1965ء کی جنگ اور بھٹو کی نااہلی (19)

دوستو! پچھلی قسط میں ہم نے 1965ء کی جنگ کے بارے میں گفتگو کی۔ ہم نے آپ کو بتایا کہ کیسے بھٹو اور ان کے ہم خیال جرنیلوں نے ایوب خان اور جنرل موسی خان کو کشمیر میں مسلح کاروائی کرنے پر آمادہ کیا۔ آج ہم ہماری گفتگو کا مرکز ذولفقار علی بھٹو کی نااہلی ہے کہ کیسے انہوں نے جنگ کے دوران اور اس سے پہلے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
یاد رہے جنگ جیتنے کے لیے کئی عوامل درکار ہوتے ہیں اور ان عوامل میں با اثر بیرونی ممالک کی حمایت سب سے اہم ہے۔ (مثلاً، اگر اسرائیل شروع سے اپنے معاملات امریکا سے بگاڑ لیتا تو اس کا وجود مشرق وسطی میں چند دنوں پر محیط ہوتا) اگر دنیا کا طاقتور ملک آپ سے نالاں ہے اور وہ آپ کے حریف کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کرتا، تو یہ بات آپ کی مخالفت میں جاتی ہے اور خاص طور پر اگر آپ نے خود دنیا کی بڑی طاقت کے خلاف جوشیلا بیان دے کر اسے اپنے سے دور کیا ہو، جبکہ جنگ کے دوران اس کی سب سے زیادہ ضرورت آپ کو ہو، تو آپ کی سوچ اور فلسفے پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ یہ جان بوجھ کر کرہے ہوں تاکہ آپ کے ملک کا ستیاناس ہو۔
جہاں ایک طرف بھٹو اور ان کے ہم خیال ساتھی ایوب خان کو مقبوضہ کشمیر میں مسلح کاروائی پر آمادہ کر رہے تھے، وہیں 1965ء کے مہینے جولائے میں وہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات بگاڑنے میں بھی بھرپور کردار ادا کر رہے تھے۔ آئیے، پہلے ہم آپکو پس منظر فراہم کریں۔
ہوا یہ کہ 27 جولائے 1965ء کو ایک میٹنگ طے تھی جس میں ورلڈ بینک نے پاکستان کو 550 ملین ڈالر دینے کا عہد کرنا تھا۔ یہ کوئی معمولی رقم نہیں تھی اور اس دور کے حوالے سے تو یہ رقم بہت زیادہ تھی۔ آج اتنے سالوں بعد آئی ایم ایف ہماری معیشت کو سہارہ دینے کے لیے محض 1 سے 3 ارب ڈالر دیتا ہے اور وہ بھی کئی شرائط کے ساتھ۔
خیر، ہوا یہ کہ اس میٹنگ کو موخر کردیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ صدر ایوب مصر کے صدر کی دعوت پر مصر کے ایک دورے پر گئے جہاں تمام وہ عالمی لیڈران موجود تھے جو بظاہر امریکا مخالف تھے: چینی وزیر اعظم چو این لائے، مصر کے صدر ناصر خود اور انڈونیشیا کے صدر سوکارنو۔ اس ملاقات کے باعث امریکا میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو لے کر تشویش پائی گئی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کو ورلڈ بینک کی جانب سے 550 ملین ڈالر دینے کے منصوبے کو فی الحال سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔
صدر ایوب نے سعید حسن (جو اس وقت پلیننگ کمیشن کے نائب چئیرمین تھے)کو اطلاع دی کہ وہ امریکی سفیر سے ملاقات کرکے پاکستان کے موقف کو واضح کریں۔ لیکن سعید حسن امریکی سفیر سے ملتے، اس سے پہلے بھٹو نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر ایک دھواں دار تقریر کی، جس سے پاک امریکا تعلقات مزید تنزلی کا شکار ہوگئے۔ بھٹو نے اس تقریر میں فرمایا:
"جناب سپیکر! امریکا چاہتا ہے کہ ہم اپنی آزاد خارجہ پالیسی تبدیل کریں اور اگر ہم نہیں کرتے تو وہ ہمیں 200 ملین ڈالر کی امداد نہیں دے گا؟"
بھٹو کی اس تقریر نے اسمبلی کے شرکا کو جذباتی کردیا، سب نے "نو! نو! "کہنا شروع کیا۔ (یہ امریکا مخالف، آزاد خارجہ پالیسی کا چورن عمران خان نے بھی خوب بیچا اور مقبولیت حاصل کی) اسی دن شام کو ایک امریکی انفورمیشن سینٹر کو آگ لگا دی گئی۔ پاک امریکا تعلقات کشیدگی کا شکار ہوگئے۔ سرتاج عزیز (جو اُس وقت پلیننگ کمیشن کے ایک بہت ہی اہم افسر تھے) جو اس سارے معاملے کو اپنی کتاب (میں ان کی کتاب کا حوالہ دسویں قسط میں دے چکا ہوں) میں درج کر چکے ہیں، لکھتے ہیں:
"ہمیں بتایا گیا کہ اس خبر پر شدید عوامی رد عمل کے پیش نظر امریکی حکام سے کوئی ربطہ نہیں ہونا چاہیے"۔ (صفحہ 38)
عین اس وقت جب پاکستان مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کے حوالے سے منصوبہ سازی کر رہا تھا، پاکستان نے اپنے سب سے اہم اتحادی کو اپنے سے نالاں کردیا۔ وہ امریکا جو ہمیں وہ جنگی سامان اور تعاون اور حمایت فراہم کر سکتا تھا جس کے ذریعے ہم بھارت پر دباؤ ڈال سکتے تھے، اس امریکا سے ہمارے ہونہار اور بے انتہا قابل وزیر خارجہ نے دشمنی مول لے کر پاکستان کو عالمی سطح پر رسوا کردیا۔ بھارت یہ سب دیکھ رہا تھا اور آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کے بعد "آپریشن گرینڈ سلیم" (اس کا ذکر ہم بعد میں کرتے ہیں) کے نتیجے میں اس نے پاکستان میں اپنی فوجیں داخل کردیں۔
آج ہمیں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان سیٹو اور سینٹو کا رکن ہونے کے باوجود 1965ء کی جنگ کے دوران امریکی امداد سے محروم رہا۔ کوئی یہ نہیں بتائے گا کہ ہماری عوام کی امریکا مخالفت اور ہمارے ہونہار عوامی لیڈر بھٹو نے پاکستان کو اس دہانے پر پہنچایا۔ خیر، پہلے تو بھٹو نے پاکستان کے امریکا سے تعلقات کو تباہ کیا، جس کی جنگ کے دوران پاکستان کو اشد ضرورت تھی، ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی نااہلی یا پاکستان دشمنی مزید ثابت کردی جب 4 ستمبر 1965ء کو انہیں ایک سائفر موصول ہوا جس میں بہت ہی اہم خفیہ معلومات درج تھیں۔
ہوا یہ کہ بھارت میں موجود پاکستان کے سفیر میاں ارشد حسین کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ 6 ستمبر کو بھارت پاکستان میں اپنی فوجیں داخل کر رہا ہے۔ اب میاں ارشد براہ راست پاکستان کو یہ معلومات فراہم نہیں کر سکتے تھے۔ لہذا انہوں نے بھارت میں موجود ترکی کے سفیر سے درخواست کی کہ وہ کراچی میں موجود ترکی کے سفارت خانے میں ان کا یہ خفیہ پیغام پہنچائیں۔ مزید پھر کراچی میں موجود ترکی کے سفارت خانے نے یہ پیغام دفتر خارجہ (پاکستان) کو پہنچانا تھا۔ اس خفیہ معلومات کی اہمیت ہر عقل مند جانتا ہے۔ لیکن جب یہ پیغام دفتر خارجہ پہنچا، تب۔۔ خیر، ہم الطاف گوہر صاحب کی تحریر آپ کے سامنے رکھتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:
"ضابطے کے مطابق بیرون ملک سفارتی نمائندوں سے وصول ہونے والے تمام خفیہ پیغامات کی ایک نقل صدر کو ضرور پیش کی جاتی ہے۔ اس پیغام کی نقل صدر کو نہ دی گئی، نہ ہی دفتر خارجہ نے اس پر کوئی کاورائی مناسب سمجھی۔ بعدازاں یہ معلوم ہوا کہ بھٹو اور عزیز احمد نے یہ سوچ کر مذکورہ پیغام کو دبا دینے کا فیصلہ کیا تھا کہ ارشد حسین "اپنے کمزور اعصاب کے باعث حسب معمول گھبراہٹ کا شکار ہوگئے ہیں"۔ (صفحہ 350)
یعنی اُس موقع پر بھی بھٹو کو یہ یقین تھا کہ بھارت پاکستان میں اپنی فوجیں داخل نہیں کرے گا۔ آپریشن جبرالٹر بُری طرح ناکام ہوگیا تھا۔ پاکستان کی کاروائی سے بھارت آگاہ تھا۔ لیکن بھٹو اپنی ضمانت پر ڈٹے ہوئے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ پاکستان کی کاروائی کے نتیجے میں بھارت اپنی فوجیں پاکستان میں داخل نہیں کرے گا۔ یہی وہ ضمانت تھی جس کی بدولت ایوب خان نے آپریشن جبرالٹر کے لیے حامی بھری تھی۔ لیکن جیسے کہ آگے ثابت ہوا، یہ ضمانت بے بنیاد تھی۔ بھارت نے پاکستان میں اپنی فوجیں داخل کردیں۔ پاکستان کو اس حملے کی اطلاع مل چکی تھی، لیکن ہمارے ہونہار اور قابل وزیر خارجہ نے اُس خفیہ بات کو ان سنی کر دیا۔
برائین کلوئلی (میں ان کی کتاب کا حوالہ پچھلی قسط میں دے چکا ہوں) بھی (صفحہ 81 میں) لکھتے ہیں کہ بھٹو نے ایوب خان کو یہ یقین دلایا تھا کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔ البتہ وہ مزید لکھتے ہیں کہ جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا، تب بھٹو نے لغو قسم کی توجیہات پیش کرنا شروع کردیں۔ انہوں نے سارا الزام امریکا پر لگا دیا۔ وہ ابھی بھی سمجھتےتھے کہ پاکستان کو "آزاد خارجہ پالیسی" کی سزا دی جارہی تھی۔ کلوئلی صاحب بھٹو کے اِس خیال (بلکہ مغالطے) پر طنزیہ انداز میں لکھتے ہیں:
"یہ پاگل پنے پر مبنی بکواس تھی۔ لیکن بھٹو نے اپنے آپ کو یہ باور کرادیا تھا کہ امریکا ایک دشمن ہے۔ آخرکار کوئی نہ کوئی بیرونی وجہ تو بھارت کے حملے کے پیچھے ہونی ہی تھی۔ کیونکہ وہ، یعنی بھٹؤ، غلط تو نہیں ہوسکتا۔۔ فی الحال، ستمبر 1965ء میں، بھٹو کے لیے کسی کو مورد الزام ٹھہرانا کافی تھا لیکن فوجی جوانوں کو جنگ لڑنی تھی"۔
سوچیں ذرا۔ پاکستان کو امریکا کی جانب سے 550 ملین ڈالر ملنے والے تھے، اس منصوبے پر پانی پھیر دیا گیا۔ بعدازاں بھٹو کی جوشیلی اور دھواں دار تقریر نے پاک امریکا معاملات کشیدہ کردیے۔ بعدازاں حماقت پر مبنی آپریشن جبرالٹر کی ابتدا کی گئی۔ جب وہ بری طرح ناکام ہوا اور پاکستان کو بھارت کے حملے کی اطلاع ملی تو اسے بھٹو نے نظر انداز کردیا اور جب ان غلط فیصلوں کے نتیجے سامنے آنے لگے تو بھٹو نے امریکا کو ہی مورد الزام ٹھہرانا شروع کردیا۔ واہ! واہ! یہ ہے ہمارے سب سے پہلے منتخب وزیر اعظم کی بطور وزیر خارجہ کارستانی!
یاد رہے آپریشن جبرالٹر کے بعد براہ راست بھارت نے پاکستان میں اپنی فوج داخل نہیں کی تھی، بلکہ آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کے بعد آپریشن گرینڈ سلیم کے نتیجے میں بھیجی تھی۔ آپریشن گرینڈ سلیم کے ذریعے بھارت کو کشمیر سے منقطع کرنا تھا، جس کے لیے پاکستان کو اکھنور میں اپنی افواج بھیجنی تھیں (اور اس کے لیے پاکستانی فوج کو جموں اور سیالکوٹ کے درمیان بین الاقوامی سرحد کے ایک چھوٹے سے حصے کو عبور کرنا تھا، جب ایسا ہوا تو بھارت کو بھی ہماری سرحدوں کو عبور کرنے کا جواز مل گیا)۔ اسی آپریشن گرینڈ سلیم کے رد عمل میں بھارت نے پاکستان میں اپنی فوج بھیجنی شروع کی تھی اور اس کے بعد جنگ ستمبر کا آغاز ہوگیا تھا۔
یہ سب کچھ۔۔ اس وقت جنگ کی وجہ سے جتنے بھی لوگ شہید ہوئے، جتنی بھی عمارتوں کو نقصان پہنچا، جتنا ملک کو مالی نقصان ہوا۔۔ اس سب کے ذمے دار ذولفقار علی بھٹو تھے۔ آپریشن جبرالٹر ایک غیر معقول منصوبہ تھا ہی، لیکن اس کے لیے مناسب تیاری بھی نہیں کی گئی تھی (کئی بار غلط منصوبے بھی کامیاب ہوجاتے ہیں اگر تیاری کی گئی ہو)۔ الطاف گوہر صاحب اپنی کتاب میں بھٹو اور چینی سفیر کی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہیں، یہ ملاقات تب ہوئی جب آپریشن جبرالٹر بری طرح ناکام ہوگیا تھا۔ اس ملاقات میں جب بھٹو نے چینی سفیر کو بتایا کہ پاکستان نے گوریلا جنگ کے لیے مقبوضہ کشمیر میں اپنے لوگ بھیجے ہیں، تو چینی سفیر نے۔۔ خیر آپ الطاف گوہر کو ہی پڑھ لیجیے:
"چینی سفیر نے گوریلا جنگ کے بارے میں چینیوں کے تجربے کو قدرے تفصیل سے بیان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ چین کی جنگِ آزادی کے دوران مکمل طور پر مہارت یافتہ گوریلوں کو دیہات میں بھیجا جاتا تھا جہاں وہ کاشتکاروں اور کاریگروں کے روپ میں مقامی آبادی میں گھر مل کر رہتے تھے۔ گوریلا آپریشن کے آغاز سے پہلے متعلقہ گاؤں کے لوگوں کے لیے باقائدہ تربیت کا اہتمام کیا جاتا۔ پھر اس طرح گاؤں گوریلا سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر کام کرتے اور کوئی گوریلا اپنے مرکز سے 24 گھنٹوں سے زیادہ دور نہیں رہتا تھا۔ بھٹو خاموشی سے چینی سفیر کی گفتگو سنتے رہے۔ انہیں اچھی طرح خبر تھی کہ "جبرالٹر" کے گوریلوں کو چھ ہفتوں سے بھی کم عرصے کے لیے تربیت دی گئی تھی اور ان کا علاقوں کے باشندوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا جہاں انہیں "حریت پسندوں "کے روپ میں بھیجا گیا تھا"۔ (صفحہ 339)
گویا وہ کام جس کے لیے بہت محنت لگتی ہے، بہت ساری تیاری درکار ہوتی ہے، بہت زیادہ تربیت چاہیے ہوتی ہے، اس کام کو جلد از جلد بغیر کسی صحیح منصوبہ سازی کے، بغیر تکنیکی پہلو سامنے رکھے، جلدبازی میں عمل میں لایا گیا۔ یہ واقعات پڑھ کر آپ کا یقین پختہ ہوگیا ہوگا کہ کبھی کبھی ملک کو "بیرونی سازش" نہیں، بلکہ اپنے ہی چراغ سے خطرہ ہوتا ہے، وہ چراغ جو گھر کو روشن نہیں کرتا، الٹا اس گھر کو آگ لگانے کے کام آتا ہے۔ ایسے لوگوں سے سانپ بہتر ہوتے ہیں، کیونکہ سانپ کا زہر کم از کم ادویات بنانے کے کام تو آتا ہے۔
دوستو! وقت اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ انشاء اللہ مزید گفتگو اگلی قسط میں۔ فی الحال ہمیں اجازت دیجیے۔ اللہ حافظ!
اور ہاں! اگر یہ مضامین آپ کو پسند آرہے ہیں، آپ کی رہنمائی کر رہے ہیں، آپ کے ذہن کو حقائق فراہم کر رہے ہیں، تو انہیں اپنے دوستوں اور عزیزوں میں ضرور تقسیم کیجیے۔ اللہ نگہبان!

