Mazhab Aur Science
مذہب اور سائنس

مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے کے مدِمقابل لا کھڑا کرنا ایسا ہی ہے جیسے سورج اور قمر کو ایک ہی دائرۂ نور میں تولنے کی کوشش کی جائے۔ یہ دونوں اپنی اپنی فطرت، دائرۂ کار اور مقصد میں جداگانہ حیثیت کے حامل ہیں۔ سائنس تغیر پذیر فہم کا نام ہے جو مشاہدے، تجربے اور قیاس کی بنیاد پر ارتقا پذیر ہوتا ہے۔ جب کہ مذہب ایک الہامی نظامِ ہدایت ہے، جو خالقِ کائنات کے غیر متبدل پیغام پر مبنی ہے۔ ایک محدود فہم کا عکس ہے، تو دوسرا لامتناہی بصیرت کا سر چشمہ۔
جب کسی مذہبی نظریے کو سائنسی اصول کے ساتھ ہم آہنگ پایا جاتا ہے تو بعض افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ گویا مذہب نے اپنی حقانیت سائنس سے مستعار لی۔ مگر یہ فکری مغالطہ اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے کہ سائنس خود ایک ارتقائی پیکر ہے، جو اپنے ہی وضع کردہ اصولوں کو رد اور نئے مفروضات کو قبول کرتی رہتی ہے۔ نیوٹن کا نظریۂ تجاذب صدیوں تک ناقابلِ تردید سمجھا گیا، مگر آئن سٹائن کی نظریۂ اضافیت نے اس کے کئی زاویے بدل دیے۔ ایٹم، جو کبھی ناقابلِ تقسیم سمجھا جاتا تھا، اب کوارکس، گلونز اور لیپٹونز جیسے مزید ذرات کی دنیا میں تحلیل ہو چکا ہے۔ کل کی مسلمہ حقیقت، آج کی نظریاتی خامی بن جاتی ہے۔ گویا سائنس ایک دریائے رواں ہے، جو ہر موڑ پر نیا منظر دکھاتا ہے۔
اس کے برعکس مذہب ایک ایسی شمع ہے جو صدیوں سے ایک ہی روشنی سے قلوب کو منور کر رہی ہے۔ اس کے اصول وقت کی موجوں سے نہ تو دھندلا ہوتے ہیں، نہ شکستہ۔ اگر سائنس عقلِ جزوی کی پیداوار ہے تو مذہب عقلِ کل کی رہنمائی ہے۔ سائنس محدود تجربات کے دائرے میں مقید ہے، جب کہ مذہب حسیات سے ماورا، ضمیر اور وجدان کی دنیا کا سفیر ہے۔ اگر کوئی سائنسی نظریہ کسی قرآنی حقیقت کے موافق نکل آتا ہے تو یہ مذہب کی صداقت نہیں بلکہ سائنس کی جزوی کامیابی ہے، جس نے حقیقت کے ابدی چہرے پر پڑی ہوئی ایک پرت ہٹا دی۔
قرآن نے کائنات کے پھیلاؤ کی بات صدیوں قبل بیان کر دی تھی، جب کہ سائنس نے 20ویں صدی میں Hubble کی مشاہداتی تحقیق کے بعد اس حقیقت کو قبول کیا۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن اس دن سے سچا ہوا جس دن سائنس نے اس کی تائید کی؟ نہیں! یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص دن کے اجالے میں آنکھیں کھولے اور سورج کی موجودگی کو اس لمحے سے منسوب کرے جب اُس نے خود روشنی کو دیکھا۔ حالانکہ سورج تو پہلے سے چمک رہا تھا، دیکھنے والا تاخیر سے بیدار ہوا۔
یہ کہنا کہ مذہب کو سائنسی اصولوں کی روشنی میں جانچنا چاہیے، درحقیقت ایک مغالطہ انگیز طرزِ فکر ہے۔ مذہب ایک مافوق العقل ہدایت نامہ ہے، جس کا مقصد اخلاقی، روحانی اور فطری قوانین کی تشریح کرنا ہے۔ جبکہ سائنس کی بنیاد شک، تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ سائنس تو خود ایک مسلسل سوالیہ نشان ہے، جو اپنے ہی جوابات کو رد کرکے نئے سوالات جنم دیتی ہے۔ مذہب یقین کی دنیا کا باسی ہے، وہ قطعی اور واضح اصولوں کا محافظ ہے۔ سائنس جب کسی نظریے کو رد کرتی ہے تو یہ اس کی فطری مجبوری ہے، لیکن مذہب میں اصولوں کی تبدیلی ممکن نہیں، کیونکہ وہ انسانی عقل کی اختراعی پرواز نہیں بلکہ وحیِ ربانی کا مظہر ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض افراد مذہب کو سائنسی عینک سے دیکھنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مذہب کی ہر بات تجربہ گاہ میں ثابت ہو، خوردبین سے نظر آئے، یا طبیعیات کے کسی قانون سے ہم آہنگ ہو۔ ایسے افراد حقیقت میں روحانی نابینا ہوتے ہیں، جو صرف ظاہر پر یقین رکھتے ہیں، باطن ان کے لیے اجنبی ہوتا ہے۔ جیسے صوتیات میں کوئی فرکوئنسی ایسی ہو جو انسانی کان سن ہی نہ پائے، ویسے ہی مذہب کی کئی سچائیاں عقلِ انسانی کی رسائی سے بالا تر ہوتی ہیں۔ انہیں صرف دل کی آنکھ اور یقین کی روشنی سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔
مذہب اور سائنس کا معرکہ دراصل فہمِ ناقص اور فہمِ کامل کے درمیان کشمکش ہے۔ سائنس اس وقت تک راست گو ہے جب تک وہ مذہب کے خلاف زبان نہیں کھولتی۔ جیسے ہی سائنس خود کو مذہب کے بالمقابل پیش کرتی ہے، وہ اپنے دائرے سے باہر نکل جاتی ہے۔ اگر سائنس مذہب کے اصولوں کو غلط ثابت کرنے پر اتر آئے، تو وہ اپنی اصل، یعنی مشاہدہ و تجربہ، کو ترک کرکے قیاس آرائی اور تخریب کاری کے رستے پر گامزن ہو جاتی ہے اور اگر مذہب کو سائنس کے تغیر پذیر اصولوں کے تابع مان لیا جائے، تو وہ ابدیت کی روح کھو بیٹھتا ہے، جو اس کی اصل بنیاد ہے۔
گویا مذہب اور سائنس کا تعلق مخالفت کا نہیں، بلکہ ہم آہنگی کا ہے، بشرطیکہ ہر ایک کو اس کے دائرے میں رکھا جائے۔ مذہب روح کا سکون ہے اور سائنس ذہن کی جستجو۔ ایک دل کو روشن کرتا ہے، دوسرا دماغ کو۔ جب دل اور دماغ ہم نوا ہو جائیں، تو انسان حقیقت کے قریب ہو جاتا ہے۔ مگر جب عقل خود کو ضمیر کا خدا سمجھنے لگے، تو نہ سائنس باقی رہتی ہے نہ مذہب۔ صرف تذبذب، شک اور فکری انارکی وجود میں آتی ہے۔
آخرکار، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مذہب وہ ازلی چراغ ہے جو کسی سائنسی دلیل یا تجربہ گاہ کا محتاج نہیں۔ وہ اپنی روشنی خود ہے، اپنا ثبوت خود۔ سائنس اگر آج کسی سچائی کو تسلیم کرے تو یہ اس کا کمال نہیں، بلکہ اس کی خوش نصیبی ہے کہ وہ ابدی سچائی کے ذرا قریب آ گئی ہے۔ مگر سچائی کو سچ تب نہیں مانا جاتا جب سائنس اس کی تصدیق کرے، بلکہ جب دل اس پر ایمان لاتا ہے، تو وہ حقیقت کا جزو بن جاتی ہے۔

