Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Kitab Ka Din

Kitab Ka Din

کتاب کا دن

ارسطو سے سوال کیا گیا کہ انسان کے کردار کے بارے میں فیصلہ کیسے کیا جائے؟ ارسطو نے جواب دیا "اس سے پوچھا جائے کہ وہ کتنی کتابیں پڑھتا ہے اور کیا پڑھتا ہے؟"یعنی کتاب صرف آپ کی دوست اور تنہائی کا ساتھی نہیں۔ بلکہ یہ آپ کے کردار کی خوبصورتی کو بھی اجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق امریکہ کی صرف چند لائبریریوں میں ایک ارب سے زیادہ کتابیں موجود ہیں اور پوری دنیا کے اسلامی ممالک میں جتنی کتابیں تمام کتب خانوں میں ہیں وہ تعداد میں امریکہ کی ایک لائیبریری کے برابر ہیں۔

دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک کو دیکھ لیں۔ کتاب اور لائبریری ایک ضروری شے کی طرح نظر آئے گی۔ آپ شاندار اور جدید گھروں کی ویڈیوز کو دیکھیں، کچن میں بھی کتابوں کی الماری نظر آئے گی۔ جبکہ پاکستان میں صورتحال برعکس ہے۔ خاص طور سے حکومتی سطح پر کتب بینی کو فروغ دینے کا رواج ہرگز نہیں ہے۔

ہمارے ملک میں سیاست دانوں کی مظلوم اور انھیں ایک ہیرو بنا کر آپ بیتاں اور کتابیں چھپوانے کا رواج ہے اور ہر سیاست دان کا اپنے دور حکومت میں مخالفین کی کتابوں پر پابندیاں لگانا بھی قانون کی طرح ضروری ہے۔

خود ہمارے سیاستدان کتابیں تب پڑھتے ہیں، جب زنداں میں اسیر ہوتے ہیں۔ اس دوران یہ کتابیں لکھتے بھی ہیں۔

میں نے تمام سیاست دانوں کی کھانا کھانے سے لے کر جوتا پہننے تک کی ویڈیوز دیکھی ہیں۔ مگر کبھی کسی کو کتاب پڑھتے نہیں دیکھا۔ حالانکہ یہ عمل قابل فخر ہے۔ ایسی ویڈیوز اور تصاویر اچھی بھی لگیں گی۔ مگر اس تکلیف دہ صورتحال کے باوجود پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد کتاب سے محبت کرنے والی ہے۔ یہ کتاب خریدتے بھی ہیں اور پڑھ کر علم کے ساتھ ذہنی آسودگی بھی حاصل کرتے ہیں۔

عوام بالخصوص خواتین کو چاہئے کہ خود بھی کتابیں پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔ بہت اعلیٰ لائبریری نا سہی، اپنے کپڑوں کی الماری میں ہی کتابوں کے لیے جگہ بنا لیں۔ جب چھ سات ہزار کا جوڑا لیں تو ایک کتاب بھی لازمی خریدیں۔

شاعری، ناول، افسانے، فکشن، اسلامی کتب، تاریخ، ادب غرض جس موضوع پر کتاب ملے پڑھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کا ذوقِ "سنجیدہ اور سمجھدار" ہوتا جائے گا اور آپ خود ہی سچ اور جھوٹ کا تعین کرنے لگیں گے۔

کہتے ہیں۔ جب کوئی بادشاہ دوسرے ملک کو فتح کرنے کی غرض سے حملہ آور ہوتا تھا۔ تو مفتوح ملک کی نادر کتب اپنے ساتھ لے جاتا تھا اور کچھ ظالم تو کتب خانوں کو آگ لگا کر راکھ کے ڈھیر بنا دیتے تھے۔ کیوں کہ جانتے تھے باشعور عوام پر قابو پانا زیادہ مشکل اور بعض حالات میں ناممکن ہوتا ہے۔

اس لیے صاحب اقتدار سے درخواست ہے کہ کتابوں کو عام کریں۔ خود بھی پڑھیں اور عوام کو بھی اس کی ترغیب دیں۔ تا کہ ہم ہجوم نہیں، ایک قوم بن سکیں۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan