کون سی جوڑی نک سک سے درست ہے؟

گزشتہ سے پیوستہ کالم بھر میں ہم جی بھر کے جھک مارا کیے مگر سید شہاب الدین صاحب کے اس سوال کا تسلی بخش جواب نہ دے پائے کہ "آخر جھک، ہے کیا چیز جسے مارا جاتا ہے؟" اللہ بھلا کرے ڈاکٹر محمد سلیم صاحب کا، جنھوں نے رابغ (سعودی عرب) ہی میں بیٹھے بیٹھے اُن لوگوں کا سراغ فراہم کر دیا جو سچ مُچ میں جھک مارتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:
"سنسکرت میں جھکھ، مچھلی کے معنی میں ہے۔ اسی جھکھ، سے جھک ہے۔ کانٹا لگا کر مچھلی پکڑنے والے کسی شخص کو آپ نے دیکھا ہو تو معلوم ہو کہ یہ کیسا نشہ ہوتا ہے۔ صبح تڑکے نکل جاتے ہیں۔ کانٹا لگا کر بیٹھے رہتے ہیں۔ گھنٹوں مچھلی نہیں پھنستی۔ کہنے کو جھک، مار رہے ہوتے ہیں، لیکن جھک، دام میں نہیں آتی"۔
لندن(برطانیہ)سے جناب رضوان احمد فلاحی نے ہرکارے، کا کام کرتے ہوئے ایک کار آزمودہ، اُستاد کا پیام ہم تک پہنچایا ہے۔ یہ پیام ہے جناب محمد طارق کا، جو ممبئی (نالاسوپارہ) میں معلم ہیں اور آپ کا آبائی وطن رائے بریلی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
"بزرگوں سے سُنا ہے کہ جَھک ایک چھوٹی مچھلی ہوتی ہے۔ اس کے شکار میں کافی[مرادبہت] وقت لگتا ہے اور شکار کا حاصل بھی کچھ نہیں ہوتا۔ لہٰذا لاحاصل کام کرنے کے لیے جھک مارنا، استعمال ہونے لگا۔ احمد حاطب صدیقی تک یہ اطلاع پہنچا دی جائے"۔
جی اطلاع پہنچ گئی، بہت بہت شکریہ۔ برادر گرامی سید شہاب الدین صاحب بھی مطلع ہو جائیں کہ جَھک، ایک چھوٹی مچھلی ہے جسے مارا جاتا ہے۔ ہم نے بھی اپنے بچپن میں ایسے کئی شکاریوں کو ملیر ندی کے کنارے صبح سے شام تک بیٹھے جھک مارتے دیکھا ہے۔
یہ تو تھی گزشتہ سے پیوستہ کالم کی بات۔ گزشتہ کالم ("آرسی کیا ہے اور مصحف کیا؟") کے حوالے سے محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب حفظہ اللہ نے رہنمائی فرمائی ہے:
"آپ نے لکھا ہے: "مصحف صحیفوں کے مجموعے کو کہتے ہیں" المنجد میں میم کے زبر، زیر، پیش کے ساتھ مُصحف کے معنی ہیں: "کتاب، مجلَّد کتاب، قرآنِ مجید"الغرض لفظ مُصحف مفرد ہے اور اس کی جمع "مَصاحِف" ہے۔ البتہ آپ نے صحیفہ کی جمع "صُحف اور صحائف" درست لکھی ہے، اسی سے حضرت عثمانؓ کے لغتِ قریش پر جمع کردہ نسخۂ قرآنی کو "مُصحفِ عثمانی" کہا جاتا ہے۔ مفتی منیب الرحمٰن۔ یکم مارچ5 202ء"
پچھلے کالم میں ہم نے مصحف کے حوالے سے اسرارؔ ناروی (ابن صفی)مرحوم کا ایک شعر نقل کیا تھا۔ ہمارے ملک کی ایک مشہور علمی شخصیت نے (اپنے نام کی اشاعت کی ممانعت کرتے ہوئے)اس سلسلے میں ایک اور شعر کا حوالہ دیاہے۔ لکھتے ہیں:
"اسرارؔ ناروی المعروف ابنِ صفی، نے اپنے محبوب کومخاطَب کرکے یہ شعر بھی کہا ہے:
مصحفِ رُخ، کلامِ پاک سہی
ہم بھی بیٹھے ہیں باوضو، آؤ
یعنی شاعر رخِ یار کو مُصحَف سے تشبیہ دیتا ہے اور "لَا یَمَسُّہ، اِلَّا الُمُطَھَّرُوُنَ" کی طرف اشارہ کرکے بوس وکنار کی دعوت دیتے ہوئے کہہ رہا ہے: ہم بھی بیٹھے ہیں باوضو، آؤ۔ والسلام۔ "(وعلیکم السلام)
شاعری میں مصحف، استعارہ ہے چشم ولب و رُخسار کے مجموعے کا۔ یہ مجموعہ شکل و صورت کا حصہ ہے۔ شکل و صورت کے حوالے سے محترمہ قانتہ رابعہ، گوجرہ (ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ) صوبہ پنجاب، کاسوال موصول ہوا ہے:
"نک سک سے درست ہے یا نک سے سکھ تک؟ میں نے حکیم سعید صاحب کی ایک تحریر پڑھی ہے جو "رمضان اور عیدِ محبت" کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ اپنے اس مضمون میں حکیم صاحب نے لکھا ہے:
"رمضان کا مہینہ آتا تو برکات نازل ہو جاتیں۔ ہماری والدہ محترمہ رمضان آنے سے پہلے گھر میں سفیدی کراتیں۔ صفائیاں نِک سے سِکھ تک ہوتیں، "
معلوم یہ کرنا ہے کہ کون سی جوڑی درست ہے؟ نک سک یا نک سکھ؟"
ہماری باجی قانتہ رابعہ کو نک سک سے درست ہونے کا خیال خاصی دیر سے آیا۔ خیر، دیر آید درست آید۔ حکیم محمد سعید صاحب دہلوی، تھے۔ دہلی والوں کی زبان درست ہوتی ہے۔ مگر نک سک سے درست اُنھیں بھی ہونا پڑتا ہے۔ اُردو میں جو محاورہ رائج ہے وہ "نِک سِک سے درست ہونا" ہے۔ لیکن غلط حکیم صاحب کا محاورہ بھی نہیں۔ تاہم صحیح غلط جاننے کے لیے لغات میں غلطاں ہونا پڑے گا۔
لغات سے پتا چلتا ہے کہ سنسکرت میں نکھ، ناخن کو کہتے ہیں اورشِیکھ، یاسیکھ، سر کو، سر کے بالوں کو یا سر میں بندھی چوٹی کو۔ صاحبِ فرہنگِ آصفیہ مولوی سید احمد دہلوی کا خیال ہے کہ "سِکھ شاید سیس کا بگڑا ہوا لفظ ہے"۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ سِیس (بروزنِ بِیس20) ہندی میں سر، کے لیے بولا جاتا ہے۔ اصل محاورہ تھا"نِکھ سِکھ سے درست ہونا"۔ مراد پاؤں کے ناخن سے سر کے بالوں تک یا ایڑی سے چوٹی تک یعنی اول سے آخر تک بے عیب، بے نقص، عمدہ، خوب اور موزوں ہونا۔ اس محاورے کے ساتھ ہی فرہنگِ آصفیہ میں ایک محاورہ "نکھ سے سکھ تک" بھی درج کیا گیا ہے، اس کا مطلب بھی اول تا آخر، ہے۔ پس حکیم صاحب کا محاورہ درست ہے۔ مگر نکھ اور نک، دونوں کے نون کی حرکت پر اہلِ لغت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ نون بالفتحہ یعنی زبر کے ساتھ بھی ہے اور بالکسرہ یعنی زیر کے ساتھ بھی۔ جب کہ سک اور سکھ کے س، پر نون سے بھی شدید اختلافات ہیں۔ سین، پر زیرزبر پیش یعنی تین کے تین پائے گئے۔ نَک سَک سے درست، نِک سِک سے درست اور نِک سُک سے درست سب ہی درست ہیں۔ اب آپ کی مرضی، آپ کا جیسے جی چاہے درست ہو لیں۔
ویسے اُردو میں نکھ سکھ یا نک سے سکھ تک لکھنا اور بولنا عام نہیں ہے۔ عام طور پر نک سک سے درست ہونا یا نک سک سے ٹھیک ہونا ہی بولا اور لکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پررنگینؔ اپنے محبوب کی رنگینیاں بیان کر تے ہوئے کہتے ہیں:
سب سے گفتار جدا سب سے نرالی نک سک
اور شوقؔ قدوائی کا شعر ہے:
کبھی ٹھیک نک سک سے بندی بھی تھی
خدا نے ادا اور پھبن دی بھی تھی
احتیاطاً بتاتے چلیں کہ نون پر زبر کے ساتھ نَک، کو ناک کے مخفف کے طورپر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً جس کی ناک کٹی ہوئی ہو اُس کو نکٹا، کہتے ہیں۔ محاورتاً ناک کٹا دینے والے (بے حیا اور بدنام) شخص کو بھی کنایتاً نکٹا کہہ دیا جاتا ہے۔ نکٹے کی مؤنث نکٹی ہوتی ہے۔ اسی طرح جس شخص کی ناک پر ہر وقت غصہ دھرا رہتا ہو کہ جب دیکھیے اپنی ناک چَڑھائے ہوئے ہے تو ایسے غصور، بدمزاج، مغرور اور بد دماغ آدمی کو نَک چَڑھا، کہتے ہیں۔ بعضی بعضی عورتیں بھی نَک چَڑھی، ہوتی ہیں۔ ہمارا یہ فقرہ پڑھ کر ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی، چچی چودھرائن کو کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے، بولے کہ "تمھارے اس جملے میں بعضی بعضی، فالتو الفاظ ہیں، انھیں نکال دو"۔ بہرحال، کہنا یہ تھا کہ نک سک اور نک سے سکھ تک کا تعلق ناک سے نہیں ہے۔ ہاں نک سے سکھ تک کے درمیان ناک کا علاقہ بھی پڑتا ہے۔
باجی قانتہ رابعہ کاسوال یہ تھا کہ کون سی جوڑی درست ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ دونوں ہی درست ہیں۔ اللہ جوڑی سلامت رکھے۔