Thursday, 24 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Tasveer Ka Doosra Rukh

Tasveer Ka Doosra Rukh

تصویر کا دوسرا رخ

جب بیٹی جھوٹ بولے، انصاف کہاں جائے؟

کل میں نے سگے باپ کے ہاتھوں زیادتی کا شکار بیٹی کی فریاد پر لکھا جو کہ سکے کا ایک رخ ہے۔ اسی سکے کا دوسرا رخ بھی ہے جس پر آج بات کرنا ضروری ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں بیٹی کی آنکھ میں آنسو ہو تو پورا شہر دروازے کھول دیتا ہے اور ہونا بھی یہی چاہیے۔ بیٹی اگر لرزتی آواز میں کہے کہ "ابا نے،! " تو ہماری غیرت، ہمارا نظام اور ہمارا قلم سب بے قابو ہو جاتے ہیں اور کیوں نہ ہوں؟ بیٹی تو اعتبار کا دوسرا نام ہے۔

مگر کبھی کبھی۔۔ بیٹی جھوٹ بھی بولتی ہے۔

جی ہاں، یہ جملہ تلخ ہے مگر مکمل سچائی کی تلاش میں ہمیں کبھی کبھی کڑوا سچ بھی سننا پڑتا ہے۔

محبت کی آڑ میں، ضد کے نشے میں، کسی ناجائز تعلق کو بچانے کے لیے، یا محض باپ کی سختی سے بغاوت کے جذبے میں بعض ضدی اور باغی بیٹیاں وہ الزام لگا دیتی ہیں جو نہ صرف ایک باپ کی زندگی تباہ کر دیتا ہے بلکہ باپ بیٹی کے مقدس رشتے کو سولی پر لٹکا دیتا ہے۔ جذبات کی رو میں بہہ کر نوجوان اولاد اپنے والدین تک کی جان لیتی ہے یہ واقعات تو آپ سب نے سن رکھے ہونگے۔ گزشتہ برس ایک واقعہ رپورٹ ہوا جس میں ایک لڑکی نے اپنے بوائے فرینڈ کیساتھ مل کر اپنے حقیقی باپ کی جان محض اس وجہ سے لے لی کہ اسکا باپ اس رشتے پر راضی نہیں تھا جس لڑکے سے وہ شادی کرنا چاہتی تھی۔

کیا ایف آئی آر کے چند الفاظ کافی ہوتے ہیں کہ ایک باپ، ایک استاد، ایک محافظ کو درندہ بنا دیا جائے؟ ہرگز نہیں۔ ہم نے ماضی میں دیکھا کہ لاہور کے ایک معروف کالج کے پروفیسر پر کس طرح ہراسمنٹ کا جھوٹا الزام لگا پھر کس طرح اس استاد کو رسوا کرکے کالج سے نکال دیا گیا جس پر دلبرداشتہ ہو کر اس نے خودکشی کر لی مگر بعدازاں انکوائری میں وہ پروفیسر بےگناہ ثابت ٹھہرا۔

ہمارے ہاں المیہ یہی ہے کہ الزام سچ ہو یا جھوٹ، معاشرہ دونوں پہلو جانے بغیر فیصلہ صادر کر چکا ہوتا ہے۔ سچائی کی تلاش کرنے والا ہر شخص مجرم بن جاتا ہے کیونکہ ہم نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ بیٹی جھوٹ نہیں بول سکتی مگر سچ تو یہ ہے کہ جھوٹ کی کوئی صنف نہیں ہوتی۔

کبیر والا واقعہ کے متعلق میرے تک کچھ مبہم سی اطلاعات پہنچی ہیں جن سے یوں لگتا ہے کہ یہ واقعہ مزید انکوائری کا متقاضی ہے اگر مکمل انکوائری کے بعد وہ الزام علیہ یعنی باپ نردوش ٹھہرتا ہے تو ایسی بیٹی سے بڑا گنہگار بھی کوئی نہیں جس نے ایک پاوتر رشتے کو محض اپنی خواہشات کی بھینت چڑھا کر رسوا کر دیا۔ ایسی بیٹی صرف باپ کو نہیں جھٹلاتی بلکہ وہ ہر مظلوم لڑکی کی آواز کو بھی کمزور کر دیتی ہے۔

کل کو کوئی بیٹی واقعی ظلم کا شکار ہو تو لوگ اُس کی فریاد پر سوالیہ نشان رکھیں گے کیونکہ کسی ایک کے جھوٹ نے سچ کا گلا گھونٹ دیا تھا۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر مظلوم کو انصاف ملنا ضروری ہے تو بےگناہ پر لگنے والے جھوٹے الزام کو بھی اسی شدت سے پرکھنا ضروری ہے۔

بیٹی مقدس ہے۔

مگر انصاف اُس سے بھی زیادہ مقدس ہے۔۔

اور اگر انصاف ایک پلڑے میں جھولنے لگے۔۔

تو معاشرے کے توازن، رشتوں کی حرمت اور اعتماد کی بنیادیں ہلنے لگتی ہیں۔

خاکسار کی بات کا لب لباب یہی ہے کہ

نہ ہر بیٹی مظلوم ہے۔

نہ ہر باپ معصوم

لیکن جب الزام ہو تو فیصلہ صرف ثبوت کرے، جذبات نہیں۔

ہمیں وہ سماج بننا ہے جو سچ کے ساتھ کھڑا ہو۔۔

چاہے وہ سچ بیٹی کہے یا باپ۔

وماعلینا الاالبلاغ۔

Check Also

Nizami Street Baku (2)

By Ashfaq Inayat Kahlon