Akhir Kyun
آخر کیوں

کتابیں بہت سی لکھی جاتی ہیں، مگر کچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں جو محض الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتیں، بلکہ وہ ضمیر کی صدائیں بن کر قاری کے دل میں اتر جاتی ہیں۔ معروف صحافی اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا صاحب کی کتاب "آخر کیوں" بھی کچھ ایسی ہی تخلیق ہے۔ یہ محض سوال نہیں، بلکہ ایک فکری چیخ ہے جو ہمارے نظام، سیاست، معاشرہ اور صحافت کے تضادات پر اٹھتی ہے۔
کلاسرا صاحب کا شمار اُن صحافیوں میں ہوتا ہے جو فقط خبریں دینے پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ ان خبروں کے پیچھے چھپے محرکات اور کرداروں کو بھی بے نقاب کرتے نظر آتے ہیں۔ "آخر کیوں" دراصل انہیں مشاہدات، تجربات اور سچائیوں کا نچوڑ ہے۔ یہ کتاب ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے ہمارے اداروں کو کھوکھلا کیا، قوم کو مایوسی دی اور سچائی کو جرم بنا دیا۔
کتاب کا ہر باب ایک نیا سوال اٹھاتا ہے، ایک نئی حقیقت سے پردہ چاک کرتا ہے۔ کہیں سیاستدانوں کی کرپشن زیرِ بحث ہے، تو کہیں اداروں کی بے حسی۔ کہیں میڈیا کی بے سُری سازشوں کا ذکر ہے، تو کہیں عوام کی بے بسی کی داستاں۔
رؤف کلاسرا صاحب کا اندازِ تحریر سادہ مگر دل میں اتر جانے والا ہے۔ وہ نہ فقط الفاظ سے بات کرتے ہیں بلکہ جذبات، خلوص اور سچائی سے بھی گفتگو کرنے کا فن بخوبی جانتے ہیں۔ وہ صحافت کو محض پیشہ نہیں سمجھتے، بلکہ اسے ایک مشن، ایک ذمہ داری مانتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں وہ دکھ صاف جھلکتا ہے جو ایک باشعور فرد کو اپنی قوم کی حالت زار دیکھ کر ہوتا ہے۔
"آخر کیوں" محض ایک کتاب نہیں ہے، بلکہ یہ پاکستان کی اجتماعی نفسیات کا تجزیہ بھی ہے۔ یہ اُن نوجوانوں کے لیے ایک دعوتِ فکر ہے جو تبدیلی کا خواب لیے میدان میں اترے ہیں، مگر راستے کی دھند میں سچائی کا چہرہ کھو بیٹھے ہیں۔
رؤف کلاسرا صاحب نے اِس کتاب میں نہ صرف سوال اٹھائے ہیں بلکہ قاری کو یہ بھی سکھایا ہے کہ سچائی کا سامنا کیسے کیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ "آخر کیوں" صرف کتاب نہیں ہے بلکہ وہ آئینہ ہے جو ہمیں ہمارا اصل چہرہ دکھاتا ہے۔