Number One Aur Turning Point
نمبر ون اور ٹرننگ پوائنٹ

بیٹا، چاند پر قدم رکھنے والا پہلا شخص کون تھا؟ نیل آرمسٹرونگ اور دوسرا کون تھا؟ میں ابھی گوگل سے چیک کرکے بتاتا ہوں۔ کوئی ضرورت نہیں، تمہیں سمجھانا تھا کہ تمہیں بھی ہمیشہ نمبر ون ہی رہنا ہے، تب ہی اچھی زندگی جی پاؤ گے۔ ہم میں سے کتنے والدین ہیں جو اپنے بچوں کواس نمبر ون کے بوجھ تلے دبائے رکھتے ہیں؟ رزلٹ کارڈ، پراگرس رپورٹ، مارکس، گریڈز یہ سب بچوں کے آگے بڑھنے اور اعلی مستقبل کی بنیاد ضرور ہیں۔ لیکن زندگی میں ان کی کامیابی کی سو فیصد ضمانت ہرگز نہیں۔ زندگی بہت سے نشیب و فراز سے گزرتی ہے، بہت سے مواقع دیتی ہے۔ منزل تک پہنچنے تک کئی فیصلہ کن موڑ آتے ہیں۔
کھیل کا میدان ہو، یا تعلیمی امتحان ہو، ملازمت کے حصول کے لئے کانٹے دار مقابلہ ہو، یا اعلیٰ تعلیمی ادارے کے لئے انٹری ٹیسٹ ہو۔ غیر نصابی سرگرمیوں کے لئے اپنے تعلیمی اداروں کی نمائندگی کا معاملہ ہو۔ طلبا یا امید واروں پر بہرطور پریشر کا ہونا ایک لازمی امر ہے۔ اس مشکل صورتحال میں والدین کو اپنے بچے کی تیاری میں ہر ممکن مدد کے علاوہ اسے یقین دلانا چاہیے کہ اس کا کام نتائج کی پروا کیے بغیر پوری جی جان سے تیاری کرنا ہے۔ بچوں کی محنت اور کوشش کو اتنا سراہیں، کہ وہ نمبر ون اور ٹو کی دوڑ سے بے نیاز میدان میں اتریں اور نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو جب وہ پیچھے مڑ کر دیکھیں، تو ان کی کوشش اور محنت کو سراہنے والے والدین ان کے لئے بازوپھیلا کر کھڑے ہوں۔
ہمارے اطراف میں ایسی کئی مثالیں نظر آتیں ہیں۔ جہاں اوسط درجے کے طالب علموں نے اپنے مستقبل میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ وہ اپنے تعلیمی سفر میں درمیانے درجے کے طلبا سمجھے جاتے تھے۔ لیکن انہوں نے زندگی میں کامیابی حاصل کی اور نام کمایا۔ کوئی حادثہ یا واقعہ، کوئی رشتہ یا شخص، کوئی ٹھوکر حتی کہ کبھی کوئی ایک جملہ ہماری زندگی کا رخ موڑ دیتا ہے۔ اسے ایک نئے معنی دے جاتا ہے۔ بمشکل پاس ہونے والا طالب علم میدان مار لیتا ہے اور اپنی زندگی کی بساط پلٹ دیتا ہے۔ کیوں کہ اس کی محنت، جذبہ اورجنون اسے اس مقام تک لے جاتے ہیں جس کا شاید کبھی خود اس نے اور اس کے اردگرد لوگوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ وہ اپنے اندر چھپے ہوئے جوہر کو جان لیتا ہے جو اس کی کامیابی کی ضمانت بن جاتا ہے۔ لیکن زوربازو آزمانا شرط ہے۔
معمولی نمبروں والا ہر طالب علم اس وقت ہی بلندیوں کو چھوتا ہے جب وہ اپنی پرواز کی ٹھان لیتا ہے۔ کبھی من پسند پروفیشن نہ ہونے کی وجہ سے پوری صلاحیتیں کھل کر سامنے نہیں آتیں۔ کبھی والدین اپنے ادھورے خوابوں کا بوجھ بچوں کے کندھوں پر ڈال دیتے ہیں تو کبھی طالب علم ہی خود کو پہچان نہیں پاتا کہ کون سی فیلڈ اس کی صلاحیتوں کے لئے سب سے بہتر ہے؟ لیکن یہ بات طے ہے کہ بے دلی اور بغیر محنت کے جو بھی کام کیا جائے اس میں ترقی اور آگے بڑھنا نا ممکن ہے۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے معجزے رونما نہیں ہوتے۔ کیوں کہ خدا تعالیٰ بھی انہیں کی مدد فرماتے ہیں جو اپنی مدد آپ کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔
ہماری زندگی میں کئی ایسے مقامات آتے ہیں جہاں ہمیں اہم فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ مثلاً اپنی تعلیمی ڈگری کا انتخاب، اپنے کیرئر کا چناؤ، ملازمت یا کاروبار کے مسائل سے الجھنا، لائف پارٹنر کا چناؤ، ازدواجی زندگی کے مسائل، بچوں کی تعلیم و تربیت کے مسائل سے نپٹنا، ریٹائرمنٹ کے اپنی صحت اور حالات کے مطابق بہتر لائحۂ عمل مرتب کرنا وغیرہ۔
ہماری زندگی میں اندرونی اور روحانی طور پر بھی کئی ایسے موڑ آتے ہیں جو زندگی ہی بدل ڈالتے ہیں۔ جیسے کسی بہت پیارے رشتے کا بچھڑ جانا، دھوکہ اور فریب، بیماری، بڑھاپا، تنہائی، مالی مشکلات وغیرہ چند مثالیں ہیں۔ یہ تلخ اور شیریں تجربات ہمارے انداز فکر پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ کبھی زندگی پر مثبت طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں، تو وہیں کسی کی تباہی کا کارن بھی بن جاتے ہیں۔ کوئی حادثہ زندگی بھر کے لئے اپنے زہریلے اثرات چھوڑ جاتا ہے۔ کچھ لوگ اندرونی توڑ پھوڑ اور جذباتی کشمکش کے بعد ایک بہت مضبوط شخصیت بن کر ابھرتے ہیں۔ انہیں احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے اندر کی توانائی اور صلاحیتوں کو محسوس ہی نہیں کیا۔ لیکن وہیں کچھ لوگ بکھر جاتے ہیں اور کچھ کو خود کو سمیٹنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔
انسان مادی طور پر بھی کبھی نمبر ون اور ٹو کی دوڑ میں شامل ہونے لگتا ہے لیکن یہ دوڑ اسے صرف تھکاتی اور بے سکون رکھتی ہے۔ کچھ اسی بے سکونی میں اس دار فانی سے چلے جاتے ہیں اور کچھ پرجلد ہی اس دوڑ کے بے معنی اور لا حاصل ہونے کا ادراک ہو جاتا ہے۔ جو ان پر خود شناسی اور حقیقت پسندی کے دروازے کھول دیتا ہے۔

