Hamare Ghair Mutnaza Hero Kon Hain?
ہمارے غیر متنازعہ ہیرو کون سے ہیں؟

"منہاسئین" نامی نئی ترکیب پڑھنے اور سننے کو ملی جو ہمارے جنگی لڑاکا طیاروں کے پائلٹوں کو دی گئی ہے۔ یہ ترکیب راشد منہاس کے نام سے اخذ کی گئی ہے۔ راشد منہاس کے حوالے سے ایک دل چسپ بات شاید کم لوگوں کو معلوم ہے کہ بیس سالہ پائلٹ کو جواں مردی اور شجاعت دکھانے پر پاکستان میں نشانِ حیدر سے نوازا گیا تو ان کے جہاز کو اغوا کرنے کی کوشش کرنے والے انتیس سالہ انسٹرکٹر مطیع الرحمان کو بنگلہ دیش کے اعلی ترین ملٹری ایوارڈ بیرسریشتو سے نوازا گیا۔ یعنی واقعہ ایک ہی لیکن ایک قوم کا وِلن دوسری قوم کا ہیرو ٹھیرا۔
دنیا بھر میں قومی ہیروز کی قدر کی جاتی ہے اور ان کے ناموں سے نہ صرف عوامی مقامات، عمارات اور شاہ راہیں منسوب کی جاتی ہیں بلکہ اہم تر بات یہ ہے کہ ان شخصیات کو نصاب کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر ہیرو عسکری شعبے سے ہیں جب کہ تہذیب و ترقی کے اعلی مدارج تک پہنچنے والی اقوام کے ہیرو عموماََ فلاح عامہ، تعلیم، تحقیق، ادب، سیاست اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ نصاب میں انھیں شامل کرنے کا مقصد طالب علموں میں اعلی اخلاقی قدروں کی تشکیل و ترویج ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ ایک سماج کے لوگوں کو باہم منسلک کرکے ایک اجتماعی تشخص بھی دیتے ہیں۔
پاکستان میں بھی ایسے حقیقی ہیروز کونمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ ہمارے ہاں متفق الیہ ہیرو تلاش کرنا ایک کارِ دارد ہے۔ اِس کے باوجود چند قومی ہیروز کے نام پیشِ خدمت ہیں۔
1) عبدالستار ایدھی
انھوں نے نہ صرف رفاہی اور انسانی ہم دردی کے شعبوں میں بے مثال کام کیا بلکہ منظم اور مربوط طریقے سے قومی سطح پر رفاہی کاموں کی داغ بیل ڈالی۔ عوام کو فلاحی کاموں میں وسیع تر اجتماعی شراکت کا قابلِ عمل و تقلید تصور دیا۔
2) اختر حمید خان
انھوں نے اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز کیا اور بنیادی سطح سے مسائل کے حل کی تشکیل وتعمیر کا آغاز کیا۔ ان کے اس منصوبے کی دنیا بھر میں مثال دی جاتی ہے۔
3) جہانگیر خان
اسکواش کے اس لیجنڈری کھلاڑی کی بے پناہ صلاحیت نے اسکواش جیسے ملکی سطح پر محدود پیمانے پر کھیلے جانے والے کھیل میں عالمی سطح پر تنِ تنہا پاکستانی جھنڈا یوں بلند رکھا کہ لگاتار چھے برس تک عالمی چیمپیئن اور دس برس تک برٹش اوپن چیمپئن رہ کر ناقابلِ شکست رہے۔ اس لیجنڈری کھلاڑی نے 1981 سے لے کر 1986 تک مسلسل 555 میچ جیتے۔
4) مولانا ابوالاعلی مودودی
بہت سے دوستوں کے لیے یہ ایک متنازعہ نام ہوسکتا ہے لیکن یہ علامہ اقبال کے بعد اس سرزمین پر پیدا ہونے والے ایسے نمایاں ترین صاحبِ علم نابغے ہیں جن کی تصانیف آج بھی ملک سے باہر مدینہ سے لے کر قاہرہ تک پڑھائی جاتی ہیں۔ کسی اور پاکستانی کا علمی کام دیگر ممالک کے نصاب کا یوں حصہ نہیں۔
5) ڈاکٹر عبدالسلام
سائنسی میدان میں پاکستان کے نمایاں ترین بیٹے نے پورے کرہِ ارض پر ارض پاک کا نام روشن کیا، ان کا کمال کم ترین سطح سے اٹھ کر، بغیر اعلی سطح کی معاونت کے، اپنے بل بُوتے پر نوبل انعام حاصل کرنا ہے۔ فزکس کے میدان میں جھنڈا بلند کرنے والے پاکستانی بیٹے نے جب نوبل انعام وصول کیا تو بھی اپنے دیسی لباس میں ملبوس تھا۔ البتہ ان کی شخصیت مذہبی بنیادوں پر زیرِ بحث رہی ہے۔
6) نورجہاں
انھیں ملکہ ترنم کا خطاب ان کے چاہنے والوں نے دیا۔ یہ پاکستانی فنون لطیفہ کا نمایاں ترین چہرہ ہیں۔ ان کے گیت آج بھی مقبول و معروف ہیں اور ان کی دُھنوں کو جدید رنگ میں پیش کرکے کام یابی سمیٹی جاتی ہے۔
7) امجد ثاقب
"اخوت" جیسا معاشرتی بہبود کا شان دار ادارہ قائم کرکے اُسے ترقی سے ہم کنار کرنا نہ صرف ان کی نیک مزاجی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ان کی اعلی انتظامی صلاحیت کا بھی عکاس ہے۔ یہ ان ہیروز میں واحد بقید حیات شخصیت ہیں۔
سیاست دان
سیاسی شخصیات کے ساتھ تنازعات منسلک ہوتے ہیں، کوئی ایک سیاسی لیڈر بھی غیر متنازعہ اور ہمہ گیر حمایت نہیں رکھتا۔ البتہ میرے پیشِ نظر حسین شہید سہروردی جیسا مرنجاں مرنج، نیک اور فعال سیاست دان ہے تو محمد خان جونیجو جیسا جمہوریت پسند راہ نما بھی جس نے وزیراعظم منتخب ہوتے ہی بغیر کسی سیاسی جماعت کی سپورٹ کے تن تنہا مکمل جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ اس دور کے حاکم اعلی کے سامنے جا رکھا تھا۔ علاوہ ازیں مبشر حسن سے لے کر حنیف رامے، نواب زادہ نصر اللہ خاں سے لے کر معراج خالد تک اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کی طویل فہرست ہے۔ موجودہ سیاست دانوں میں عبدالمالک بلوچ سے لے کر رضا ربانی جیسے عمدہ اور نیک نام سیاست دان روشنی کا استعارہ ہیں۔
دعوتِ عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے۔

