Balochistan Mera Ishq
بلوچستان میرا عشق

رات گئے مجھے ایک بلوچ دوست کی کال آئی۔ یہ وہ شخص تھا جو مجھے لے کر وہاں وہاں گیا جہاں بنا سیکیورٹی کارواں جانا ممکن نہیں ہوتا۔ کیچ سے ہم شروع ہوئے۔ میری گاڑی کو پنجاب کا نمبر لگا ہوا تھا۔ یوں بھی ان علاقوں میں جدید اور نئی گاڑی فوراً پہچان لی جاتی ہے کہ یہ باہر کی ہوگی۔ تربت سے آواران اور پھر وڈھ سے خضدار اور وہاں سے خاران کی جانب یہ تین دن کا ٹور تھا۔ ان ساری جگہوں پر بسے قبائل نے مجھے ویلکم کہا۔ گاڑی تن تنہا سڑک پر چلتی تھی۔ کہیں کہیں لیویز کی چیک پوسٹس تھیں مگر وہ خالی پڑی تھیں۔ سنہ تھا 2019 اور تازہ تازہ بی ایل اے نے تربت آواران روڈ پر کوسٹ گارڈز کو ٹارگٹ کرکے مار دیا تھا۔ حالات کشیدہ تھے۔
میں صرف اعتبار کے سہارے اس کے ساتھ چلتا جا رہا تھا۔ میری خود اس سے پہلی ملاقات تھی۔ فیس بک کے توسط سے ہی اس نے مجھے دعوت دی تھی۔ میرا ارادہ تو کراچی سے نکل کر گوادر جانے کا تھا اور بس۔ پھر اس کی دعوت اور سیکیورٹی یقین دہانی پر میں نے اعتبار کر لیا اور سوچا کہ چلو ان علاقوں میں تن تنہا تو میں شاید کبھی جانے کا رسک نہ لے سکوں۔ موقع ہے تو چلے چلوں۔ میں اس بندے کا تعارف نہیں کرانا چاہ رہا البتہ اتنا کافی ہے کہ وہ بااثر اور بلوچ قبائل میں باعزت بندہ ہے۔
مکران کوسٹل ہائی وے پر تربت موڑ آتا ہے۔ کوسٹل ہائی وے سیدھی اوڑمارہ کی جانب چلی جاتی ہے اور اس موڑ سے ٹرن لے لیں تو تربت کی جانب سڑک نکلتی ہے۔ تربت کو جاتی سڑک امن و امان کے حوالے سے خطرناک ہے۔ اسی موڑ پر لیویز کی چیک پوسٹ ہے۔ اس چیک پوسٹ کو کراس کرکے تھوڑا آگے ایک بندہ میرے انتظار میں سڑک پر کھڑا ملا تھا۔ البتہ چیک پوسٹ پر مجھے روک کر کہا گیا کہ یہاں سے واپس جاؤ یا گوادر کی جانب جاؤ۔ تربت کس کام سے جا رہے ہو وغیرہ وغیرہ۔ ان کو یقین دلایا کہ میں تربت نہیں جا رہا۔ فوٹوگرافر ہوں بس یہی دو تین کلومیٹر آگے ایک جگہ کی تصویر لے کر واپس آ رہا ہوں۔
خیر، چیک پوسٹ سے نکل کر سڑک سنسان ہو جاتی ہے۔ اس ویران سڑک پر ایک شخص موٹرسائیکل پر کھڑا تھا۔ سلام دعا کے بعد اس نے بائیک آگے لگا لی اور میں اس کے پیچھے لگ گیا۔ لگ بھگ بارہ تیرہ کلومیٹر اسی سڑک پر چلتے رہے۔ پھر سڑک کو چھوڑ کر کچے پتھریلے میدان میں اتر گئے اور پھر سڑک بہت پیچھے رہ گئی۔ اس جگہ چلتے مجھے بہت سے خدشات آئے کہ میں یہ کہاں جا رہا ہوں اور کیوں رسک لے رہا ہوں۔ آگے جنگلی خاردار جھاڑیوں کا سلسلہ تھا اور پھر تین چار کچے پکے گھر نظر آنے لگے۔
ایک گھر کے باہر موٹرسائیکل رکی۔ اندر سے وہی شخص نکلا اور میں پہلی بار اس سے ملا۔ اس کو مل کر تسلی ہوگئی کہ یہ بے ضرر انسان ہے۔ پہلی رات وہیں بیتی۔ آدھی رات تک علاقے کے مسائل پر باتیں چلتیں رہیں۔ رات کو وہاں اس کے کچھ دوست بھی کھانے پر آ گئے۔ اس علاقے کو کیچ کہا جاتا ہے۔ یہ گچکی بلوچ قبیلہ تھا۔ میرا میزبان گچکی تھا۔ رات کو کھانے پر بات چلی تو بات سنجیدہ ہوتی گئی اور ہر بات کا سرا جا کر فورسز سے مل جاتا۔ میں نے ان سب کی سنجیدگی بھانپتے ہوئے موضوع کو بدلنا چاہا اور سسی پنوں کی کہانی چھیڑ دی۔ سسی پنوں کی داستان اسی کیچ کے علاقے کی داستان ہے۔
اگلی صبح سفر پر نکلنے سے قبل اس نے کچھ فون گھمائے اور پھر کہنے لگا کہ چلو، انشااللہ خیر ہوگی۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا "مطلب آپ پورے یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ خیر ہوگی؟"۔ اس نے قہقہہ مارا "میں نے اپنے دوستوں کو کہہ دیا ہے کہ میں سفید رنگ کی ٹیوٹا سی ایچ آر جس کی چھت کالی ہے اس پر آ رہا ہوں۔ ہمیں اپنے لوگوں سے کوئی خطرہ نہیں۔ ہمیں آپ کے لوگوں سے خطرہ ہے"۔
تربت بازار پہنچے۔ بازار دیکھ کر میری سیٹی گم ہوگئی۔ تربت کا بازار اچھا خاصہ بارونق اور جدید بازار ہے۔ مجھے امید نہیں تھی کہ ایسا بازار ہوگا۔ میں سمجھتا تھا جیسے دور دراز کے قصبوں کے بازار ہوتے ہیں ویسا ہی ہوگا۔ وہاں پیزا اور برگر شاپس اور جدید کنسٹرکشن دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی۔ سب ہی نمایاں بینکس بھی موجود تھے۔ بازار میں چہل پہل تھی۔ وہاں ایک گھر میں پرتکلف کھانے کا بندوبست تھا۔ پھر وہاں سے نکل کر اگلے تین روز میں وڈھ، خاران، خضدار کی جانب سفر میں رہا۔ ہر رات پرتکلف کھانوں کا بندوبست تھا اور ہر رات ہی بلوچ لوگوں کے مسائل کے ذکر میں بیتی۔
خاران سے میرا ارادہ نوشکی اور وہاں سے کوئٹہ کو نکل کر واپس پنجاب کے سفر کا تھا۔ خاران میں میرا میزبان رک گیا۔ البتہ اس نے ایک بندہ ساتھ کر دیا جو مجھے نوشکی تک لے جاتا اور وہیں اتر جاتا۔ اس کی وجہ کہ خاران سے نوشکی کا سفر میرے اکیلے کے لیے خطرناک ہو سکتا تھا۔ وہ جو شخص نوشکی تک میرا ہمسفر ہوا وہ سخت مزاج تھا۔ سارا راہ اس نے گلے شکوے کیے۔ میں سنتا رہا۔ اس کے لہجے میں درد کے ساتھ بیزاری بھی تھی۔ اس کے کزن کے ساتھ ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آ چکا تھا جس کے بعد وہ معذور ہوگیا تھا۔
نوشکی کے قریب ایک چیک پوسٹ آ گئی۔ ایف سی اہلکار کھڑے تھے۔ اس چیک پوسٹ پر شناختی کارڈ چیک کیا گیا اور اس بندے کی تلاشی لی گئی۔ مجھے بھی کہا گیا کہ باہر نکل کر تلاشی دوں۔ پھر پوچھا کہ اس کو کیسے جانتے ہو؟ کہاں سے آ رہے ہو؟ ان کو بتایا کہ یہ دوست ہے۔ لاہور میرے پاس رہا اور میں اب اس کو ملنے یہاں آیا۔ اس سے بھی پوچھا گیا۔ اس نے بھی سیم یہی بتا دیا۔ گاڑی چلی تو مجھے بولا " تمہارا پرس چیک نہیں کیا گیا۔ میرا پرس بھی چیک کیا گیا۔ یہ ہے فرق پنجابی اور بلوچ کا"۔
رات کو اسی دوست کی کال آ گئی۔ حالات و واقعات کا ذکر کرتا رہا میں سنتا رہا۔ لب لباب اس کا یہ تھا کہ آپ اپنے جذباتی لوگوں سے یہ اپیل تو کر دیں کہ ماہ رنگ کے مطالبات پر تنقید کرنی ہے کرو۔ اس کی بے عزتی تو نہ کرو۔ اس طرح یہاں نفرت بڑھ رہی ہے۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر اس پر گھٹیا وار کیے جا رہے ہیں۔ اگر ڈاکٹر شازیہ کو لے کر بلوچ لڑ مر سکتے ہیں تو اپنی دوسری بیٹی ماہ رنگ کے لیے بھی مر سکتے ہیں۔
میں بطور پنجابی اور پاکستانی ہر دو حیثیت میں ماہ رنگ بلوچ کی ذات پر کیے جانے والے گھٹیا حملوں کی مذمت کرتا ہوں اور اپیل کرتا ہوں کہ ایسی حرکات نہ کریں۔ اس سے اشتعال جنم لے رہا ہے۔ آپ کا جو بھی مؤقف ہے وہ اچھے انداز میں دیں۔ سیاسی مؤقف پر بات کریں۔ اس کے مطالبات پر تنقید کریں لیکن بطور عورت اس کی توہین نہ کریں۔ میں جانتا ہوں کہ میرے کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا اور پنجابی شاؤنسٹ ایسی حرکات سے باز نہیں آنے والے مگر درخواست ہے کہ گھٹیا حرکات نہ کریں۔
یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا جب تلک ماہ رنگ مسنگ پرسنز کا مقدمہ لڑ رہی تھی میں اخلاقی طور پر ان کے ساتھ تھا۔ اس کے لیے کالم لکھے۔ اسی وال پر موجود ہیں۔ مسنگ پرسنز کا مقدمہ حقیقی ایشو تھا۔ اب جب ماہ رنگ بی ایل اے کا مقدمہ لڑنے لگ گئیں ہیں تو میں اس کو قابل مذمت سمجھتا ہوں۔ بی ایل اے ہو، بی ایل ایف ہو یا ٹی ٹی پی ہو۔ جس گروہ یا لشکرنے ہتھیار اُٹھا کر سٹیٹ پر مسلط ہونا چاہا ہے اور ساتھ ساتھ نہتے عام پاکستانیوں کی جان لی ہے وہ میری نظر میں دہشت گرد ہے اور دہشت گردی کے لیے سافٹ کارنر رکھنے والے یا اس کی مذمت نہ کرنے والے بھی ان کے شریک سمجھتا ہوں۔ یہ میرا مؤقف ہے۔
میں تمام غیر مسلح بلوچ لوگوں کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں اور ان کا شکرگزار رہتا ہوں جنہوں نے بہت سے حقیقی مسائل کا سامنا کیا ہے اور مسلسل کرتے آ رہے ہیں۔ جو اس مسلط شدہ سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرز کی جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں۔ بلوچستان سے مجھے عشق ہے۔ یہ میری دھرتی ہے۔ اس کے لیے ساری عمر لگا کر اس کا سافٹ امیج بین الاقوامی سطح پر پروموٹ کیا ہے۔ میرا بھی ان حالات پر دل دُکھتا ہے کیونکہ میں نے تو اس ملک کے لیے عملی طور پر اپنے تن، من اور دھن سے خدمت کی ہے زبانی کلامی تو نہیں کی۔ مجبور تو میں بھی ہوں جس کے بس میں حالات نہیں ہیں۔ نہ میرے چاہنے سے سُدھر جانے ہیں۔ التماس ہی کر سکتا ہوں کہ ریاست اور ریاست میں بستے عوام ہوش کے ناخن لیں۔