Sindh Taas Muahida Aur Gilgit Baltistan
سندھ طاس معاہدہ اور گلگت بلتستان

بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کیا، جس کے تحت سندھ، جہلم اور چناب دریاؤں کے پانی پر پاکستان کا حق جو اس معاہدے کے تحت قائم تھا، وہ بھارت نے ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ ان تینوں دریاؤں کا پانی مستقل روک دینا بھارت کے لئے ویسے ممکن نہیں ہے جس طرح سے راوی اور ستلج کا پانی روکا جاتا ہے۔
کچھ حد تک چناب کا پانی روکا جا سکتا ہے اور کسی حد تک جہلم کا، لیکن مکمّل روکنا بھارت کے لئے ممکن نہیں کیونکہ یہ پہاڑی علاقے ہیں جہاں ڈیم تو بن سکتے ہیں لیکن دریاؤں سے نہریں نکالنا یا رخ موڑ دینا بہت ہی مشکل امر ہے۔
جہلم اور چناب سے کہیں زیادہ ناممکن دریائے سندھ ہے، جو دراصل تِبّت سے ایک بڑے نالے کی صورت میں لداخ میں داخل ہوتا ہے جو بھارت کے زیرِ انتظام ہے، یہاں چھوٹے بڑے ندی نالے اس میں داخل ہوتے ہیں اور اس کا سائز قدرے بڑا ہو جاتا ہے پھر یہ پاکستان کے زیر انتظام بلتستان کے علاقے کھرمنگ میں داخل ہوتا ہے جہاں مرول کے مقام پر کارگل سے آنے والا دریائے سُورو اس میں آ ملتا ہے۔ اس کے بعد بلتستان بھر سے سینکڑوں ندی نالے اس میں ملتے رہتے ہیں اور اس کے پانی کی مقدار بڑھتی ہے۔ بلتستان میں ہی خپلو سے آنے والا دریائے شیوق اس میں آ ملتا ہے جس کا منبع لداخ میں ویسے تو نوبرا وادی ہے، لیکن خپلو کے مختلف ندی نالے اس کے سائز میں اضافہ کرتے ہیں۔ پھر آگے چل کر شِگر سے آنے والا دریا بھی اس میں گرتا ہے۔ اسکردو اور رونگ یُول (روندو) کے علاقوں میں بھی مختلف چھوٹے بڑے ندی نالے اس میں گرتے ہیں یہاں تک کہ یہ دریا گلگت میں داخل ہو جاتا ہے جہاں دریائے گلگت اس میں گرتا ہے۔ اسی طرح گلگت و چلاس و استور کے چھوٹے بڑے ندی نالے اور دریا اس میں گرتے جاتے ہیں۔
غرض اگر ہم وضاحت کے ساتھ بات کریں تو صرف 5فیصد پانی لداخ سے آتا ہے ورنہ دریائے سندھ کا 95٪ پانی پاکستان میں ہی تشکیل پاتا ہے جس میں گلگت بلتستان ایک بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ اگر گلگت بلتستان کے باسیوں نے 1948 میں ڈوگرہ راج کے خلاف جنگ آزادی نہ لڑی ہوتی اور اپنا الحاق پاکستان سے نہ کیا ہوتا تو پاکستان کے لئے دریائے سندھ میں بھی مسائل بڑھ جاتے۔ کچھ دیر کو فرض کر لیتے ہیں کہ گلگت بلتستان پاکستان میں نہ ہوتا تو دریائے سندھ کے اہم منابع پاکستان میں نہ ہوتے، پھر واقعی پاکستان قحط سالی اور پانی کی کمی کا شدید شکار ہو سکتا تھا۔
لہذا گلگت بلتستان کی قدر کرنی چاہیے۔ اگر ہم اب بھی ان علاقوں کی اہمیت نہ سمجھیں تو کب سمجھیں گے؟ یہ علاقے تو قیامِ پاکستان کے وقت ملک کا حصّہ نہ تھے، لگ بھگ ایک سال بعد ان علاقوں نے اپنا اِلحاق پاکستان کے ساتھ کیا تھا۔ لیکن بدلے میں انہیں کیا ملا؟ مسئلۂ کشمیر کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر اٹھہتر سالوں تک انہیں شناخت سے محروم رکھا گیا ہے۔
یہ دنیا کا واحد خطّہ ہے جو کنٹرول کرنے والے ملک میں شامل ہونا چاہتا ہے لیکن وہ ملک کہتا ہے کہ تم ہمارا حصّہ نہیں، متنازعہ ہو۔
لمحۂ فکریہ ہے۔

