Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Moazzam Ali
  4. Etemad

Etemad

اعتماد

یہ واقعہ 12 جنوری 2023 کا ہے کہ رات ایک بجے کا وقت تھا اور پھولوں والا چوک (پُھلاں ولا چوک) لاہور سے شرقپور شریف کی طرف سفر کے لئے کسی ممکنہ سواری کا انتظار ہو رہا تھا۔ شاید یہ واحد علاقہ ہے اس ریجن میں جہاں رات 9 بجے کے بعد جانے کے لئے عوامی سواری عمومی طور پر دستیاب نہیں ہوتی۔ لوگ ذاتی گاڑیوں پر تو سفر رات گئے تک کرتے رہتے ہیں لیکن جس کے پاس سواری نہیں اس کے لئے مذکورہ وقت کے بعد جانا تقریباََ ناممکنات میں شمار کیا جا سکتا ہے اگر کسی کی قسمت نے یاوری کی تو وہ پچھلے پہر بھی کسی سبب کے باعث علاقے میں بخیر و عافیت پہنچ سکتا ہے لیکن ایسا بہت کم ہی واقعہ ہوتا ہے لہذا اہل اختیار و اقتدار کو اس طرف بھی توجہ کرنی چاہئے تاکہ جو مسافر رات کو سفر کرنا چاہیں اُن کے لئے کم از کم کوئی آپشن موجود ہوتاکہ بحفاظت سفر کر سکیں۔ قصہ مختصر کہ راقم الحروف کو بھی ایسے حالات کا کئی بار سامنا ہو چکا ہے اور نہیں معلوم کہ کب تک ایسا ہوتا رہے گا اور پیشِ نظر واقعہ بھی اِسی سفر کی ایک داستان ہے۔

بہرحال کافی دیر گوں مگوں کی صورتِ حال میں مبتلا رہنے کے بعد ایک رکشہ سوار سے سفری کرایہ طے پانے کے بعد گروہ کی صورت میں سفر شروع ہوگیا۔ رات قریب دو بجے کا وقت ہو چکا تھا، اندھیرا انتہائی گہرا ہو چکا تھا اور سردی کا موسم ہونے کے سبب دھند بھی کافی گہری چھائی ہوئی تھی۔ حدِ نگاہ صفر ہو چکی تھی لیکن رکشہ سوار کمال مہارت سے انتہائی تیز رفتاری سے رکشہ چلائے جا رہا تھا۔ ماحول کی وجہ سے کوئی کھڈا نظر نہیں آرہا تھا اور نہ ہی کسی سپیڈ بریکر کو خاطر میں لایا جا رہا تھا۔ مسافروں کی زبانوں پر دعائیں جاری تھیں جو کچھ ہی دیر کے بعد دل ہی دل میں التجاؤں میں تبدیل ہونا شروع ہوگئیں کیونکہ سبھی کو ایسے ہی محسوس ہو رہا تھا کہ کسی بھی لمحے رکشہ الٹ بازی کھا سکتا ہے لہذا کسی بھی حادثاتی صورت کے پیش نظر ہر مسافر اِسی سوچ میں گُم تھا کہ اگر خدانخواستہ ایسا کچھ ہوا تو کونسی احتیاطی حفاظتی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں کیونکہ وہ رکشہ مختلف گاڑیوں جن میں کاریں بھی شامل تھیں کی لمبی لمبی قطاروں کو پیچھ چھوڑے جا رہا تھا جو خراماں خراماں موسمی حالات کے باعث چل رہی تھیں لیکن یہ رکشہ سوار بلا تردد سب کو پیچھے چھوڑنے کی تگ و دو میں مصروف تھا جیسے یہ اولمپک دوڑ کا آخری مرحلہ ہے جس کے اختتام پر انعام و اکرام کی بارش ہوگی لہذا حتی الوسع کوشش کی جا رہی تھی کہ اِسے لازمی جیتنا ہے جس کے لئے بظاہر عملی کاوشیں رکشہ سوار کی طرف سے بروئے کار لائی جارہی تھیں جبکہ مسافروں کی اندرونی کیفیات سے وہ مکمل طور پر بے خبر تھا۔

پھر ایک ایسا مقام بھی آیا کہ دلی مرادیں رنگ لے آئیں، آنکھوں نے سجدہ عجز ادا کیا اور جسم کے تاروپود نے تشکرکے اظہار میں والہانہ بارِگاہ ایزدی میں تعریفات و توصیفات بیان کیں۔ منزل مقصود پر پہنچ چکے تھے اور مسافر باری باری رکشہ سے اترنے میں لگے ہوئے تھے۔ ڈرائیور جو سب سے پہلے اترنے کے بعد اور رکشہ کو حالتِ سکون میں لانے کے بعد سڑک پر کھڑا انگڑائیاں لے رہا تھا۔ ابھی کچھ مسافر رکشہ میں سوار ہی تھے کہ انجن بندھ ہونے کے باوجود رکشہ نے دھیمہ دھیمہ سِرکنا شروع کر دیا۔ سوار مسافروں کے ہمراہ باقی افراد نے بھی ڈرائیور کی توجہ اس طرف مبذول کروائی کہ ہموار سطح پر بندھ انجن کے ساتھ رکشہ نے چلنا کیسے شروع کر دیا؟ تو ڈرائیور ہمہ تن گوش گزار ہوا کہ اِس کی بریک ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتی۔ بس یہی سننا تھا کہ تمام مسافروں کے بدنوں پر جیسے سکتہ سا طاری ہوگیا ہو۔ ہوش وحواس بحال ہونے کے بعدمتجسسانہ انداز میں سب نے یک زباں ہوکر پوچھا کہ پھر سارے راستے میں اتنا تیز رفتاری سے رکشہ کیوں چلا رہے تھے تو اُس وقت جو جملہ ڈرائیور کی زبان سے ادا ہوا وہ تاریخی لحاظ سے بھی حیران کُن تھا اور حادثاتی پہلو سے ایک ایٹم پھٹنے جیسی کیفیت رکھتا تھا اور وہ جملہ تھا "کہ وہ میرا اعتماد تھا" پس اِس جملے کے بعد جیسے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

بہر حال یہ کوئی واحد واقعہ نہ تھا جو اس سے قبل کبھی وقوع نہ ہوا ہو۔ ایسی حالتوں و کیفیتوں سے ہر روز کئی مسافر نبرد آزما ہوتے ہیں اور اس سے قبل بھی ہو چکے تھے اور آئند بھی ہوتے رہیں گے لیکن جو بات حقیقت میں گوش گزار کرنے والی ہے وہ اس موضوع کا دوسرا پہلو ہےکہ وہ لوگ جو کسی بھی سطح پر رہبری و رہنمائی کا فریضہ ادا کر رہے ہیں، چاپئے وہ فریضہ والدین کی صورت میں بچوں کی تربیت کے متعلق ہواور اولاد کی شکل میں اپنے مربیوں کی دیکھ وبھال کا مرحل ہو، کونسلر ہونے کی صورت میں ایک چھوٹے سے علاقے کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہو یا ایم پی اے، ایم این اے کی شکل میں معاشرے کی اجتماعی فلاح واصلاح کا فریضہ سر پر آن پڑا ہو۔ اس فرض کی وضع وقطع سرکاری نمائندہ کی صورت میں ہو یا سیاسی کارکن کی حیثیت میں جدو جہد کر رہے ہو ں۔ اس سیٹ کی ضروریات کو پوری کرنے کی حتی الوسیع کوشش کی جانی چاہئے۔

ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ جب آپ کو ذمہ دار ی ملے تو آپ بھی اندھاد ھند تیز رفتاری سے سفر کرنا شروع کردیں اور باقی مانند لوگ دعاؤں و التجاؤں میں مصروف ہو جائیں کہ یہ سب بخیر وعافیت انجام کو پہنچ جائیں۔ اپنی حدود قیود کو پیشِ نظر رکھ کر کام کا آغاز کریں اور سب سے اہم بات کہ جو بھی اسلامی تعلیمات کی طرف سے پابندیاں عائد ہوتی ہیں انہیں فوقیت دی جائے۔ آپ پر عائد فرائض کے سبب ملنے والے اختیارات اسلامی تعلیمات کے دائرہ تفیض میں رہتے ہوئے کسی کی دل آزاری نہ ہو، کسی کی جان و مال کے لئے خطرہ کا باعث نہیں بننے چاہئے، کسی کی عزت و آبرو پامال نہ ہو پائے، کوئی فرد آپ کی ذات کی وجہ سے اپنا مقدمہ سب سے بڑی عدالت روزِ محشر کے لئے اٹھا نہ رکھنے کی تیاری کرنے لگے اور اہم ترین بات کہ آپ کےادا کردہ فرائض کی بدولت جو رائے عامہ بن رہی ہے وہ کس طرح کا رُخ اختیار کر رہی ہے۔ عوام کی جو ذہنی تربیت ہو رہی ہے وہ سماج کی تعمیر وترقی کے لئے مثبت کردار ادا کررہی ہے یا تباہی و بربادی لانے کا موجب بن رہی ہے کیونکہ آپ کو ایک امانت سپرد کی گئی ہے جوآج نہیں تو کُل آنے والے مستقبل میں اس کےبارے میں باز پُرس ہوگی۔

اس جواب دہی کے عمل سے راہِ فرار کسی صورت ممکن نہیں لہذا ذاتی اناؤں، رنجشوں اور خواہشوں کے حصول میں اختیار کی گئی تیز رفتاری آپ کو الجھنوں، پریشانیوں اور بیمایوں کے کھڈوں میں گِرا کر سواری کی الٹ بازی لگوا سکتی ہےجس سے نہ صرف آپ کا خود کا نقصان ہوگا بلکہ وہ سب لوگ بھی مسائل سے دوچار ہوں گے جو آپ پر انحصار کرتے ہیں۔ سواری کا معائنہ کیجیئے اور جو ضروری میکنکی کام ہیں ان کی مرمت کروائیں اور معتدل رہ کر سفر شروع کریں۔ بہترین کارواں کے ساتھ منزل مقصود آپ کی منتظر ہوگی۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan