Tip Culture
ٹپ کلچر

یہ تو بہت ہی عام ہے کوئی چیز خرید لیں یا ویسے تھوڑی مدد کر دیں، گھر میں بیٹیاں ہیں، بچے بھوکے ہیں۔ آپ نے گاڑی بائیک خریدی ہے وہاں ورکرز اپنی مرضی کی رقم مبارک کے طور پر طلب کریں گے۔ آپ کے گھر لینٹر ڈالا گیا ہے، وہ لیبر بمعہ انکا ٹھیکیدار مبارک/انعام کی رقم مانگیں گے۔ نائی بال کاٹنے شیو خط بنانے کی مناسب رقم سے زیادہ ملنے کی امید رکھ کر ایسا نمانا اور لماٹا منہ بنائے گا کہ آپ کو بقایا رقم واپس لیتے ہوئے شرم آئے گی۔
اڈے سے لائے ہوئے مزدور طے شدہ اجرت سے زیادہ رقم مانگیں گے کہ آپ نے ایسا کام بتایا یہ ویسا ہے اتنا ٹائم کہا تھا یہ پورے چار منٹ زیادہ لگے ہیں، حالانکہ وہاں دو گھنٹے بھی فری بیٹھا رہتا تو اچھا تھا۔
گھروں میں کام کرنے والے/والی ملازمین طے شدہ اجرت سے زیادہ ملنے کی امید رکھیں گی۔
کار واشر کو امید ہوگی کہ مجھے Tip ملے۔ جو کار واش کی قیمت ہے وہ تو مالکوں کے پاس جا رہی ہے۔
ہسپتال میں بچہ پیدا ہونے یا کامیاب علاج پر مبارک کے نام پر نرسیں جو حال کرتی ہیں وہ کسی سے چھپا نہیں۔
آپ کوئی سامان منگوا لیں، ڈیلیوری ورکرز بھی پیسے مانگیں گے حالانکہ آپ نے جہاں سے سامان لیا وہاں کرایہ ادا کرکے آئے ہیں۔
اور بھی بہت مثالیں ہیں۔
وہ کام جو کسی نے کیا ہی نہیں اسکے لیے کوئی کیسے ڈھٹائی سے مبارک/انعام کی من چاہی رقم طلب کر سکتا ہے؟ اگلے بندے کو شرمندہ کر سکتا ہے؟ کوئی مبارک نہ دے تو اسے دو چار سنا بھی سکتا ہے۔ بظاہر مظلوم نظر آنے والا یہ طبقہ کیا واقعی اپنے آجر یا کسٹمر سے کسی اضافی رقم کا حق دار ہے؟ جو خوشی سے دیتا ہے وہ تو دے گا، جو شاید دے ہی نہیں سکتا تو اسے یہ لوگ پھر ذلیل کرتے ہیں۔
مجھے آج بھی یاد ہے لاہور ہنڈا کے شو روم سے اپلائیڈ فار سٹی لی ہم نے۔ میرے ساتھ ایک فرینڈ سرکل کی فیملی تھی۔ جس بندے نے چابی پکڑائی وہ پانچ ہزار بطور مبارک اپنی ٹیم کی طرف سے لیڈر بن کر مانگ رہا تھا۔ اسے دو ہزار دیے گیے اور وہ ناراض ہوکر جاتے ہوئے میرے سامنے کہہ گیا نو دولتیے لاکھوں کروڑوں کی گاڑی خرید لیں گے کسی غریب کو ہاتھ سے کچھ نہیں دیں گے۔ اسے شاید یہ لگا تھا میں کوئی ایجنٹ ہوں۔
ان لوگوں کو ایسا منہ پھٹ اور بدتمیز بنانے میں کیا ہمارا اپنا بھی کچھ کردار نہیں ہے؟
یہاں عمان میں ایک دن دو پاکستانی لڑکے ہمارا کچھ سامان لے کر آئے۔ دوپہر اور گرمی تھی۔ میں نے ان کو پانی پیش کیا تو بولے فورمین صاحب گاڑی میں پانی رکھا ہے آپ کا شکریہ۔ جب وہ سامان اتار چکے، ڈیلیوری تو فری تھی میں نے ان کو دو ریال اپنی خوشی سے دینا چاہے۔ ان میں سے جو سینئر تھا وہ بولا سر ہم نے اپنی ملازمت کی ہے۔ جسکی ہمیں تنخواہ ملتی ہے۔ ان پیسوں پر ہمارا کوئی حق نہیں ہے جو آپ ہمیں دے رہے ہیں۔ میں نے کہا میں تو اپنی خوشی سے دے رہا ہوں۔ بولے ہماری عادت کیوں خراب کر رہے ہیں؟
ابھی اگلی جگہ ٹرک جائے گا وہاں سے بھی اسی Tip کی امید ہوگی۔ اگر وہاں کوئی آپ جیسا نہیں ہوا تو ہماری امید ٹوٹے گی۔ شاید وہ بندہ ہمیں برا بھی لگے کہ اس کو لیبر کا کوئی خیال ہی نہیں۔ حالانکہ ہم تو اسکے ملازم ہیں ہی نہیں۔ جس کے لیے ہم کام کر رہے وہ ہمیں تنخواہ دے رہا ہے۔ اگر تنخواہ سے گزارہ نہیں ہوتا تو ہمیں جاب بدل لینی چاہئیے نہ کہ ہم بھیک لینا شروع کر دیں اور پھر ایک دن مانگنا بھی شروع ہو جائیں گے۔ اس نے بولا سر میرے ابو امام مسجد ہیں۔ ہم نے بڑے مشکل حالات دیکھے ہیں۔
ابو جی کی طرف سے نصیحت ہے سادہ پانی بھی کسی سے مانگ کر نہیں پینا۔ اپنا پانی ساتھ رکھو۔ شربت کھانا وغیرہ تو بہت دور ہے اور یہ رقم دو ریال تھوڑے نہیں ہیں جو آپ دے رہے۔ پلیز ہماری عادت نہ خراب کیجیے۔ وہ چلے گئے میں نے انکے آجر کو کال کی اور ان ڈیلیوری بوائز کی تعریف کی۔ وہ بولا جس لڑکے سے آپ کی بات ہوئی اسکی سیلری دو سو ریال اسکی انہی باتوں اور تربیت کی وجہ سے ہے۔ ورنہ ایک سو پچاس ریال سے زیادہ ہمارے پاس کسی کی تنخواہ نہیں ہے۔ میں نے کہا اس ملازم کو نہ جانے دیجیے گا کہیں سر۔ وہ بندہ انڈین تھا بولا ام تو جائے گا یہ نہیں جائے اس کمپنی ہے، مالوم ہے یہ کیسا آدمی ہے۔ اسکو کھانا نہیں مانگتا۔ کبھی بھی نہیں۔
سب سے پہلی درسگاہ گھر ہے۔ پھر سکول اور مسجد منبر سے ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہ کام ان تین جگہوں پر ابتدائی عمر میں بطور تربیت کرنے کا ہے۔ کہ اللہ نے کسی کو بہت دیا ہوا ہے تو آپ کو اللہ نے بھیک مانگنے کا حق نہیں دیا ہوا۔ اس رقم کے طلب کرنے کا حق نہیں دیا ہوا جسکے عوض آپ کی کوئی خدمت نہیں یا آپ طے شدہ رقم سے زیادہ مانگ رہے ہیں۔ ہم کسی کو چند سو یا چند ہزار دے کر اگر سمجھتے ہیں کہ کسی حقدار کی مدد کردی اور میں خود ایک عمر تک ایسا کرتا رہا۔ تو میں اور آپ غلط کر رہے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔
اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں آج کے دن تک میری یاداشت جتنا میرا ساتھ دیتی ہے۔ مجھے کوئی ایسا رول پلے کرنے کوئی ایسی جاب کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ جہاں پر مجھے ایسی کوئی Tip ملنے کی امید ہوتی۔ یا میرے آس پاس ایسے لوگ ہوتے جو ایسا کر رہے تھے۔ بلکہ ہمیشہ ایسا کیا ہے کہ اپنے وقت کی طے شدہ جائز اور مناسب قیمت بھی چھوڑ دی ہے یا کم لی ہے۔ اگر میں بھی لیبر ہوتا اور متذکرہ بالا طبقے کے ساتھ کام کر رہا ہوتا مزدوری سے گھر نہ چلتا تو شاید ایسی روش میں مبتلا ہوجاتا۔ یقین مانیے ایسا کوئی موقع نہ ملنا بھی اللہ کی ایک نعمت ہے۔ مجھے بھی لگتا کہ جن کے پاس پیسے زیادہ ہیں انکی دولت پر میرا حق ہے کہ میں غریب ہوں۔ بجائے ایسا سوچنے کے کہ مجھے اپنی اور اپنے خاندان کی ضرورتوں کے بقدر کچھ بھی اور کرکے اس موجودہ کام جاب کو چھوڑ کے اس آجر، گاؤں، شہر، ملک سے نکل کر پیسہ کمانے سے کس نے روک رکھا ہے؟

