Heat Stroke, Waqt Se Pehle Mout
ہیٹ اسٹروک، وقت سے پہلے موت

گرمی کی شدت پاکستان میں ہر سال نئے ریکارڈ توڑتی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی ہیٹ اسٹروک ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ ہر سال گرمیوں کے آغاز کے ساتھ ہی بڑے شہروں خصوصاً کراچی، حیدرآباد، لاہور اور ملتان جیسے علاقوں میں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں نہ صرف کمزور اور بیمار افراد بلکہ صحت مند لوگ بھی متاثر ہونے لگتے ہیں۔ ہیٹ اسٹروک دراصل جسم کے درجہ حرارت کے نظام کے ناکام ہو جانے کا نتیجہ ہوتا ہے، جب جسم اپنے درجہ حرارت کو کنٹرول نہیں کر پاتا اور اندرونی حرارت جان لیوا سطح تک پہنچ جاتی ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ، صاف پانی کی قلت اور بنیادی صحت کی سہولیات کی کمی عام ہے، وہاں ہیٹ اسٹروک کے اثرات اور بھی شدید ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر متاثرہ افراد مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو دھوپ میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ٹریفک پولیس، سڑکوں پر کام کرنے والے مزدور اور چھوٹے دکاندار اس کا سب سے پہلا نشانہ بنتے ہیں۔ ان افراد کے پاس نہ تو مکمل آرام کا وقت ہوتا ہے، نہ ہی مناسب پانی اور نہ ہی ٹھنڈی جگہ پر پناہ۔
معاشرتی سطح پر بھی اس مسئلے کی سنجیدگی کا فقدان نظر آتا ہے۔ عام طور پر لوگ ہیٹ اسٹروک کو محض گرمی کی شدت سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، جبکہ بروقت پہچان اور علاج سے کئی قیمتی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ عوامی آگاہی کا فقدان اور بروقت طبی امداد کی کمی، دونوں ہی اس مسئلے کو مزید خطرناک بنا دیتے ہیں۔ ہسپتالوں میں بھی اکثر ایسے مریضوں کے لیے فوری طور پر مناسب بندوبست میسر نہیں ہوتا، خاص طور پر جب متاثرین کی تعداد اچانک بڑھ جائے۔
حکومتی سطح پر کچھ اقدامات ضرور کیے جاتے ہیں، جیسے ہیٹ اسٹروک کیمپ لگانا، پانی کی سبیلیں لگانا، یا پبلک سروس پیغامات نشر کرنا، لیکن یہ اقدامات یا تو محدود ہوتے ہیں یا صرف چند دنوں کے لیے جاری رہتے ہیں۔ مستقل پالیسی سازی اور طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، جیسے شہروں میں سبز علاقوں میں اضافہ، شفاف پانی کی رسائی اور ورکنگ اوقات میں تبدیلی وغیرہ۔ اس کے علاوہ اسکولوں، دفاتر اور مساجد میں بھی عوام کو ہیٹ اسٹروک کی علامات اور اس سے بچاؤ کے طریقوں کے بارے میں آگاہی دی جانی چاہیے۔
ایک اور اہم پہلو ماحولیاتی تبدیلیوں کا ہے، جو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں موسم کے پیٹرن کو بگاڑ رہی ہے۔ پاکستان میں جنگلات کی کٹائی، اربنائزیشن اور صنعتی آلودگی نے درجہ حرارت میں اضافے کو مزید تیز کر دیا ہے۔ اگر ان بنیادی وجوہات کو حل نہ کیا گیا تو مستقبل میں ہیٹ اسٹروک جیسے مسائل نہ صرف بڑھیں گے بلکہ ان کا دائرہ بھی وسیع تر ہو جائے گا۔
ہیٹ اسٹروک ایک خاموش قاتل کی طرح ہے، جو دھیرے دھیرے ہمارے معاشرے میں اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ اس کا مقابلہ صرف طبی یا حکومتی سطح پر نہیں بلکہ اجتماعی شعور اور طرزِ زندگی کی تبدیلی سے ہی ممکن ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اسے محض ایک موسمی مسئلہ نہ سمجھیں بلکہ ایک حقیقی اور سنگین خطرہ تصور کرتے ہوئے اس کے خلاف مؤثر اقدامات کریں۔