Main Hoon Jahan Gard
میں ہوں جہاں گرد

ہر کتاب دلچسپ نہیں ہوتی۔ بعض کتابیں شروع ہی نہیں ہوپاتیں۔ بہت سی کتابیں ادھوری چھوڑنی پڑتی ہیں۔ لیکن کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا پہلا صفحہ پڑھ کر دل خوشی سے بھر جاتا ہے کہ اب خوب لطف آنے والا ہے۔ فرخ سہیل گوئندی کا سفرنامہ میں ہوں جہاں گرد ایسی ہی کتاب ہے۔
گوئندی صاحب بہت بڑے آدمی ہیں، میں حقیر ان کے بارے میں کیا لکھوں۔ ان جیسے کمٹڈ لوگ بہت کم ہوتے ہیں جن کی زندگی ان کے نظریات کی عکاس ہو، جو اپنے آدرشوں کے لیے جیے ہوں۔ ان کے پبلشنگ ہاوس جمہوری پبلی کیشنز نے مالی خسارے کے سودے کرکے نادر کتابیں چھاپی ہیں۔ خود انھیں لڑکپن کے زمانے سے سیاحت کا جنون ہے۔ وہ چار عشروں سے دنیا بھر کی خاک چھان رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کا دل ابھی بھی نہیں بھرا۔
گوئندی صاحب مجھ پر بہت مہربان ہیں۔ اپنی کتابیں مجھے امریکا تک بھجواتے ہیں۔ میں ہوں جہاں گرد نومبر میں بھیجی تھی لیکن میں ماسٹرز میں مصروف تھا۔ اب پڑھنے کا موقع ملا اور اس قدر لطف آیا کہ بیان سے باہر ہے۔
اگر آپ نے یہ کتاب نہیں پڑھی تو میں اس کا پس منظر بتادیتا ہوں۔ گوئندی صاحب نے پہلا غیر ملکی سفر اس وقت کیا جب ضیا الحق مردود ملک پر مسلط تھا۔ پاسپورٹ بنوانا، ویزے لینا اور بیرون ملک سفر آسان نہیں تھا۔ لیکن نوجوان فرخ سہیل گوئندی کے عزائم بلند تھے۔ وہ ملک سے نکلے اور ایران اور ترکی گھومتے ہوئے بلغاریہ پہنچے۔ کیا زمانہ تھا۔ ایران میں امام خمینی کی حکومت تھی۔ ترکی میں کنعان ایورن کا مارشل لا تھا۔ بلغاریہ میں کمیونزم کا سورج نصف النہار پر تھا۔
میں خود ایران جاچکا ہوں۔ ابن انشا نے اپنے سفرناموں میں ایران کا تفصیلی حال بیان کیا ہے۔ اس کے بعد مختار مسعود کے قیام نامے لوح ایام نے الگ طرح کا ایران دکھایا۔ اب گوئندی صاحب کے سفرنامے میں ایک اور رخ دیکھنے کو ملتا ہے۔
ایران میں ہندووانہ کسے کہتے ہیں، نادر شاہ کے مقبرے پر انھیں کیوں غصہ آیا، میرا سلطان کے ملک ترکی میں ایوب سلطان کسے کہا جاتا ہے، کمیونسٹوں کا ابوالہول کون ہے، یورپ میں کس شہر نے گوئندی صاحب کا دل پکڑا کہ چالیس سال بعد بھی فیس بک پر اس کے لیے آہیں بھرتے ہیں، یہ سب مزے کی باتیں کتاب میں موجود ہیں۔
اردو کے سفرناموں میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ بعض رائٹرز نے مزاح یا رومانس ڈالنے کے لیے حقیقت کم اور فکشن زیادہ لکھا ہے۔ اس لیے سفرناموں سے اعتبار ختم ہوگیا ہے اور قاری انھیں فکشن سمجھ کر ہی پڑھتے ہیں۔ لیکن گوئندی صاحب کا سفرنامہ اس عیب سے پاک ہے۔ ان کی تحریر ایسی پرلطف ہے اور اس زمانے کے حالات و واقعات اتنے اہم ہیں کہ شروع سے آخر تک قاری کی دلچسپی کم نہیں ہوتی۔
گوئندی صاحب کا کہنا ہے کہ انھوں نے چار دہائیوں پرانے سفر کے واقعات صرف یادداشت کے سہارے لکھے ہیں۔ کمال کا کام انھوں نے یہ کیا کہ زندگی کو 1983 میں منجمد کردیا۔ آج کی دنیا تب سے تھوڑی سی نہیں، بہت زیادہ مختلف ہے۔ اسی لیے یہ سفرنامے کے ساتھ تاریخ کی کتاب بھی بن گئی ہے۔