Friday, 18 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sanober Nazir
  4. Gurdaspur Se Wazirabad

Gurdaspur Se Wazirabad

گرداس پور سے وزیر آباد

گرداس پور کے پِنڈ مچھرائی کی وسیع و عریض حویلی کے عقبی حصے میں واقع سید خیرالدین شاہ کا آستانہ مغرب کی اذان سے قبل سنسان پڑا تھا۔ روزہ کھلنے میں چند ہی لمحے باقی تھے کہ آستانے کا متولی تیزی سے اندر داخل ہوا اور مودبانہ لہجے میں عرض کی۔

"پیر صاحب! بُھولے چَک سے گرپریت سنگھ اپنی اہلیہ کے ساتھ دعا کے لیے حاضر ہوا ہے۔ اس کی بیوی امید سے ہے"۔

سید خیرالدین شاہ نے تسبیح کے دانے گھماتے ہوئے لمحہ بھر سوچا، پھر سر ہلاتے ہوئے انہیں اندر بھیجنے کا اشارہ کیا۔

گرپریت سنگھ عقیدت و احترام سے آگے بڑھا اور پھر مودب انداز میں گویا ہوا۔

"پیر صاحب! بابا گرو نانک کی کرپا سے ہمارے چار بچے ہوئے، مگر افسوس، کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا۔ آپ کی دعاؤں کی برکت کے متعلق سن کر حاضر ہوئے ہیں۔ چند دنوں میں میری بیوی ماں بننے والی ہے، بچہ جننے اپنے ماں پیو کے گھر وزیر آباد جانے سے پہلے ہم آپ سے دعا کروانے کی غرض سے آئے ہیں کہ ہمارا یہ بچہ سلامت رہے اور اسے ہماری عمر بھی لگ جائے"۔

اذان کی صدا فضاؤں میں گونجنے لگی، مگر سید صاحب تسبیح کے دانے تھامے بدستور دعا میں محو رہے۔ چند لمحوں بعد انہوں نے آنکھیں کھولیں، نگاہوں میں بردباری نمایاں تھی۔ نرم لہجے میں گویا ہوئے:

"جاؤ، اپنے گھر جاؤ۔۔ تمہارا بچہ زندہ رہے گا، عمر پائے گا"۔

گرپریت سنگھ اور اس کی اہلیہ کی آنکھوں میں عقیدت کے چراغ جل اٹھے۔ دل شکرگزاری کے جذبات سے لبریز تھے۔ وہ ادب و احترام کے ساتھ آستانے سے رخصت ہوئے، امید اور آس ان کے چہروں پر جھلک رہی تھی۔

عید کا چاند خوشیوں کی بشارت لے کر ابھرا اور عید کے دن گرپریت سنگھ کے آنگن میں امید کا سورج طلوع ہوا۔ اس کی بیوی نے ایک تندرست و توانا بیٹے کو جنم دیا تھا جسے محبت سے بلبیر سنگھ کا نام دیا گیا۔

پرکھوں سے سید خیرالدین شاہ کا خانوادہ گرداس پور میں عزت و وقار کی علامت تھا۔ اس در پر ہندو، مسلم، سکھ عقیدت مند دور دراز سے اپنی حاجتیں اور امیدیں لے کر حاضر ہوتے، منتوں کے چراغ جلاتے، مرادوں کے پھول نچھاور کیا کرتے تھے۔

مگر فضا میں اب تبدیلی کی سرگوشیاں تھیں۔ ملک کے افق پر آزادی کا سورج طلوع ہونے کو تھا۔ انگریزوں کی پہنائی زنجیریں توڑنے کی تحریک ہر دل میں انگارے بھر رہی تھی اور گرداس پور کی ہواؤں میں بھی بغاوت کی سرگوشیاں گونجنے لگی تھیں۔

"وزیر آباد"

دریائے چناب کے کنارے بسا وزیرآباد، جہاں گرو کوٹھے والی گلی کے ایک پرانے مگر آباد کوچے میں گرپریت سنگھ کا پورا سسرال رہتا تھا۔ انہی گلیوں میں بلبیر سنگھ نے اپنی نانی کے گھر آنکھ کھولی تھی۔

یہ وہی گلیاں تھیں جہاں اس کے بچپن کی ہنسی دیواروں میں گونجتی تھی، جہاں اس کی نانی کی محبت ہوا میں گھلی رہتی تھی۔

اب وہ بیس برس کا ہونے آیا تھا، مگر اس گلی سے اس کی نسبت ویسی ہی تھی جیسی دریا کی روانی سے کنارے کی۔ سال میں ایک بار ماں باپ کے ساتھ ننھیال کی یاترا اس کی زندگی کا دستور تھی، جیسے کوئی پرندہ ہر موسم میں اپنے پرانے آشیانے کی طرف پلٹتا ہے۔

آج کا دن بھی عقیدت اور دعا کا تھا۔ پورا پریوار گرو کوٹھا گردوارے میں گرنتھ صاحب کے حضور ماتھا ٹیکنے کے لیے جمع تھا۔ مگر مقدس شبدوں کے بیچ بھی ایک بےنام سا خوف دلوں میں سرسرانے لگا تھا۔

گرپریت سنگھ نے جیسے ہی دل کا بوجھ لفظوں میں ڈھالا، فضا میں ایک خاموشی در آئی، "ملک کا بٹوارا ہونے جا رہا ہے"۔

پل بھر کو سنّاٹا چھا گیا، مگر پھر کسی نے قہقہہ لگایا، ایک بےفکری میں ڈوبی آواز ابھری۔

"پرا! وزیرآباد تو سکھوں کا شہر ہے، ہمیں یہاں سے نکالنے والا کون ہے بھلا؟"

سب نے سر جھکایا، گرنتھ صاحب کے حضور ہاتھ باندھے اور کوئی زیرِ لب بولا۔

"گرو نانک کی کرپا سے ایسا ہی ہو! "

"گرداس پور"

رات کی سیاہی دھیرے دھیرے دھندلا رہی تھی۔ دریائے راوی کے کنارے، دوآب کی سرسبز فصلوں میں ہلکی سی سرسراہٹ ہوئی، جیسے ہوائیں کسی راز کی چادر سرکانے لگی ہوں۔

غیاث الدین خاموشی کی چادر اوڑھے دم سادھے بیٹھا تھا کہ یکایک ایک سرگوشی ہوا کے دوش پر ابھری، پرا غیاث!

یہ بلبیر سنگھ کی آواز تھی، دھیمی مگر گمبھیر۔ وہ قریب آ بیٹھا، دونوں نے سر جوڑ لیے، راز بھری سرگوشیاں اندھیرے میں گم ہونے لگیں۔

بلبیر کی سانسیں تیز تھیں، اس کی آواز میں اضطراب تھا۔

"اگلے ہفتے گرداس پور پر حملے کی افواہیں ہیں۔ باپو نے بھیجا ہے کہ آپ سب کو خبردار کر دوں۔ اُس سمے سرکش لوگوں کو قابو میں رکھنا ممکن نہ ہوگا۔ جو کچھ کرنا ہے، ترنت کرنا ہوگا! "

اس نے سب کچھ ایک ہی سانس میں کہہ ڈالا، جیسے وقت کی ریت مٹھی سے پھسلی جا رہی ہو۔

سید خیرالدین کا چہرہ غصے سے سرخ تھا، ان کے ہاتھ بےاختیار لرز رہے تھے، مگر لہجے میں صدیوں کی گونج تھی۔ اپنے بیٹے غیاث الدین کی زبان سے گرداس پور چھوڑنے کی بات سن کر جیسے ان کے وجود میں آگ سی بھر گئی تھی۔

"ہماری پرکھوں کی جڑیں اس مٹی میں صدیوں سے پیوست ہیں۔ گرداس پور میں کس کی مجال کہ ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے؟"

"یہ سرزمین، یہاں کے در و دیوار ہمارے وجود کا حصہ ہیں۔ صدیوں کا بھائی چارہ چند ماہ کی نفرت پر کیسے مٹی میں مل سکتا ہے؟ اور تم ایک افواہ کو سچ مان بیٹھے ہو؟"

وہ یکدم اٹھ کھڑے ہوئے، جیسے اپنے یقین کی مہر ثبت کر رہے ہوں۔

"ہمارا گھرانہ کہیں نہیں جائے گا! زندگی اور موت اوپر والے کے ہاتھ ہے۔ اگر ہمارے مقدر میں اسی دھرتی پر مرنا لکھا ہے، تو کوئی مائی کا لعل ہمیں بچا نہیں سکتا! "

ان کی آنکھوں میں عزم تھا، مگر باہر ہواؤں میں طوفان کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔

پیر صاحب کی بے خوفی اور ان کے لہجے میں یقین کی طاقت نے ان کے گھرانے کو آنے والے وقت کی فکر سے آزاد کر دیا تھا۔

گرداس پور کی فضاؤں میں خوف کے سائے لرزاں تھے۔ چاند بھی اداسی کی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔

رمضان کی ستائیسویں شب کے سائے گہرے ہو چلے تھے جب پیر صاحب کی حویلی کے دروازے پر گرپریت سنگھ اپنے بیٹے بلبیر سنگھ کے ہمراہ کھڑا تھا۔ سامنے ایک بڑا ٹرک، اندھیرے کی آغوش میں چھپا، کسی فیصلے کا منتظر تھا۔

گرپریت سنگھ نے عقیدت سے آگے بڑھ کر پیر صاحب کے قدموں کو چھوا۔

آواز میں التجا تھی اور آنکھوں میں ایک جلتی ہوئی بےبسی۔

"پیر صاحب! ہم تو آپ کی دہلیز کی خاک ہیں۔

آپ کی کرپا سے میں آج ایک بیٹے کا باپ ہوں، بلبیر سنگھ کی زندگی کا واسطہ، اپنے پریوار اور محلے کے مسلمانوں کو اس ٹرک میں بٹھائیے اور ترنت یہاں سے نکل جائیں۔

عید کی خوشیوں سے پہلے، گرداس پور کی گلیوں میں خون بہانے کا حکم دیا جا چکا ہے، ہر دروازے پر موت دستک دینے کو تیار ہے۔

پیر صاحب! آپ کو اپنے رب کی قسم، یہاں نہ رکیں۔

اپنے وجود، اپنے نام، اپنی سانسوں کو اس سرزمین کی خونی پیاس سے بچا لیجیے"۔

اس کی آواز میں انسانیت تھی، وہی انسانیت جو نفرت کے اندھیروں میں بھی چراغ جلا دیتی ہے۔

"بھولے چک اور آس پاس کے سرکش جتھے چند ہی گھنٹوں میں یہاں پہنچنے والے ہیں۔ بلبیر سنگھ آپ سب کو بحفاظت وزیرآباد تک لے جائے گا۔ اگر وہ آپ کی جان بچاتے ہوئے مارا بھی گیا، تو میں سمجھوں گا کہ کم از کم آپ کا ایک ذرہ قرض تو اتار پایا"۔

پیر صاحب لمحہ بھر کو چپ رہے، نگاہوں میں قرنوں کا بوجھ لیے، پھر ایک گہری سانس لی اور اپنے گھرانے کے ساتھ اس ٹرک میں جا بیٹھے۔

وہ اپنی ہستی، اپنی پیری فقیری، اپنی محبت، اپنا بھائی چارہ، سب کچھ گرداس پور کی گلیوں میں چھوڑ کر جا رہے تھے۔ ٹرک کے پہیوں نے دھیرے سے زمین کو چھوا اور ایک پوری صدی کی داستان گرد و غبار میں لپٹتی چلی گئی۔

"وزیر آباد"

گرو کوٹھا گردوارہ کو جانے والی ساری راہیں مسدود تھیں، ہر گلی، ہر کوچہ بدمعاشوں کے پہرے میں تھا۔ سکھوں اور ہندوؤں کے لیے زمین تنگ کر دی گئی تھی۔ فسادات اپنی بھیانک ترین شکل اختیار کر چکے تھے۔ دریائے چناب روز لاشوں سے بوجھل ہو رہا تھا، جیسے پانی کے بہاؤ میں انسانیت کا جنازہ بہہ رہا ہو۔

ڈر کے سائے ہر در و دیوار پر لرزاں تھے۔ سکھوں نے گردواروں میں، ہندوؤں نے مندروں میں پناہ لے لی، کہ شاید مقدس مقامات کا احترام باقی رہے۔۔ مگر نفرت کے الاؤ میں تقدس بھی جل کر راکھ ہوگیا۔

" ہر گھر سے ایک پیالہ تیل چاہیے! کافروں کا قلع قمع کرنا ہے"۔

یہ اعلان فضا میں گونجا اور پھر جیسے گھروں سے خاموش چیخیں بلند ہوئیں۔ تیل کے ڈونگے مسجد کے باہر اکٹھے ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں بےبس روحیں اور صدیاں گردوارے میں جل کر خاک ہوگئیں۔

سید خیرالدین ابھی گرداس پور کے زخموں سے سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ وزیرآباد کی وحشتوں نے ان کی رہی سہی ہمت توڑ ڈالی۔ مگر گرپریت سنگھ کا قرض باقی تھا اور ضمیر کی عدالت میں وہ سرخرو ہونا چاہتے تھے۔

انہوں نے لرزتے ہاتھوں میں اپنی ہمت سمیٹی اور مسجد کے ممبر پر جا کھڑے ہوئے۔ ان کی گونجتی آواز نے ہجوم کو اپنی گرفت میں لے لیا۔

"سن لو! جس کسی نے اب وزیرآباد میں بسنے والے کسی سکھ یا ہندو کا بال بیکا کیا، وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہوگا! ناحق خون بہانے والے پر عذاب یہیں، اسی دنیا میں نازل ہوگا! "

فضا میں سکوت چھا گیا۔ سید خیرالدین کی بارعب شخصیت اور بزرگ آنکھوں کی گواہی کے آگے لوگ چپ ہو گئے۔ قتل و غارت کے جنون پر کچھ دیر کے لیے مصلحت کی چادر تن گئی۔

مگر اندھیروں کے سوداگر جانتے تھے کہ ایسے چراغ کب بجھائے جاتے ہیں۔

"یہ وقت فقیروں کی مصلحت کا نہیں! بھائی چارے کے قصے ہمارے مقصد کو نقصان پہنچائیں گے! ایسے منہ زوروں کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کرنا ہوگا! "

اور پھر، اگلی صبح، جب عید کی اذان چناب کی لہروں پر لرزی، نمازیوں نے کنارے پر ایک لاش بہتی دیکھی۔

سید خیرالدین کی سفید داڑھی پانی میں تیر رہی تھی، جیسے چناب نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا ہو، جیسے دریا نے بھائی چارے کی آخری سانسوں کو ہمیشہ کے لیے اپنے اندر سمو لیا ہو۔

بہ شُکریہ: وی نیوز

Check Also

Overseas Pakistanio Ka Shandar Convention

By Tayeba Zia