Chal Raha Hai Danda
چل رہا ہے ڈنڈا

انقلابی پارٹی کے ہمدردان کا بھی خوب ہے۔ ان کا سب سے سلجھا طبقہ جو گالی نہیں دیتا وہ ہر اس تحریر پر جو ان کے حق میں نہ ہو اس پر کہتا ہے "انتہائی سطحی تجزیہ"۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کہنے کو کچھ ہوتا ہی نہیں اور یہ ان میں سب سے اعلیٰ طبقہ ہے اور ہر وہ پوسٹ جو ان کے حق میں جا رہی ہو اس پر لکھتا ہے "آپ نے آج قلم کا حق ادا کر دیا"۔
عمر کی کوئی قید نہیں۔ سفید داڑھی ہو یا انیس سالہ لونڈا۔ عشقِ خان میں سب ایک سے ہیں۔ اس تہذیب یافتہ طبقے کی ایک اور مست حرکت ہے۔ مریم نواز پر تنقید کر دوں تو نیچے "گیراج" کا ذکر کرتے ہیں۔ بشریٰ بی بی کو اگر کوئی پنکی لکھ دے تو وہاں اسے اخلاق و تہذیب یاد کروانے لگتے ہیں۔ مطلب پڑھی لکھی وائٹ کالر پولیٹیکل بلائنڈنیس ہی نہیں صرف بلکہ حد درجہ self righteousness کی سوچ ہے۔
نون لیگ والے بھی اخیر ٹکرکے ہیں۔ ان کا بس سوشل میڈیا سیل تگڑا نہیں ورنہ ان کو کچھ کہہ کے دیکھ لیں۔ سب سے پہلے وہ آپ کو یوتھیا قرار دیں گے پھر عمران خان یا بشری بی بی کی ماں بہن ایک کرنے لگیں گے۔ ان میں جو سب سے سلجھا طبقہ ہے وہ ہر اس تحریر پر جو ان کو سوٹ نہ کرتی ہو اس پر "انتشاری بیانیہ" یا " آپ انتشاری پارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں کیا" جیسا کمنٹ کر دیتا ہے۔
جیالے کی رگ تب ہی پھڑکتی ہے جب بھٹو، بی بی، یا ان کی زندہ قیادت پر بات ہو۔ جو بات ان کے حق میں جا رہی ہو اس پر تو واہ کر دیتے اور جو ان کو پسند نہ آئے اس پر کہتے "آپ کو تاریخ پڑھنی چاہئیے، فلاں کی فلاں قربانیاں ہیں اور فلاں وقت فلاں نے فلاں کر دیا تھا۔ آپ کو پتہ کچھ ہے نہیں"۔ جیالوں کی اوپری کلاس نے یعنی پڑھی لکھی کلاس نے علم کا از خود ٹھیکا لے رکھا ہے۔ ان کے ہاں نان جیالا تو جاہل ہے۔ وہ خود کو سیاست، تاریخ اور سوشلسٹ نظریات کا کسٹوڈین سمجھتے ہیں۔
جماعتی و جمعیتی بھی تب تک ہی درود پڑھتے رہتے ہیں جب تک قلم کا رخ ان کی جانب نہیں مڑ جاتا۔ جیسے ہی آپ ان کی سیاسی قلابازیوں کا ذکر کریں توں ہی یہ سب سائیڈ پر رکھ کر چڑھ دوڑیں گے۔ چونکہ ان کو مذہبی ٹچ بھی اچھا سا دینا آتا ہے لہذا یہ بات حسین و یزید تک لے جائیں گے اور آپ کو یزید کہہ کر سکون پائیں گے۔
یہ میں ان سب کی پڑھی لکھی کلاس کی بات کر رہا ہوں۔ نیچے والوں کا تو وہی ہے جو سب کا مشترک سیاسی اثاثہ ہے "تیری پین دی۔۔ "
ایسے عالم میں ہر وہ شخص جس کی جماعتوں سے سیاسی و جذباتی وابستگی نہیں اور اس کا ذہن کسی گروہ یا طبقے کے ہاں گروی نہیں ہے وہ اپنی آزاد رائے کا اظہار کرکے سیاسی جتھوں کے گرداب میں پھنس جاتا ہے۔ حیرت تو مجھے اس بات پر ہوتی ہے جب یہی قوم، یہی سب افراد گلہ کرتے ہیں کہ یہاں آزادی اظہار رائے نہیں ہے۔ کیا دوسرے کو یہ آزادی دیتے ہیں جو اپنے لیے مانگتے ہیں؟
بھئی ہم ڈنڈے کی قوم ہیں۔ تو چل رہا ہے ڈنڈا۔

