Friday, 14 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ismat Usama
  4. Bazgha

Bazgha

بازغہ

حاجی منور صاحب عشاء کی نماز پڑھ کے گھر آئے تو دیکھا کہ کسی نے صحن کا نلکا کھلا چھوڑ رکھا تھا، وہ بند کرکے بچوں کو آواز لگانے لگے جو انھیں دیکھ کر چھپ گئے تھے۔ حاجی صاحب صحن میں بچھے ہوئے تخت پوش پر بیٹھ گئے۔

"او ببلو، ننھی، پپو، کدھر ہو سارے؟"

"جی دادا جی! " ایک ایک کرکے تینوں بچے باہر نکل آئے۔

"شکلیں اتنی معصوم ہیں پر عقلیں کہاں ہیں؟ سارا دن پانی کھلا چھوڑے رکھتے ہو، کتنی بار سمجھایا ہے کہ پانی ضائع کرنا اسراف ہے، گناہ ہے! " دادا جی نے خفگی کا اظہار کیا۔

"آگئے آپ؟ وہ کام ہوگیا؟" دادی جان بھی دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے آگئیں۔

"نہیں اور؟ میری شکل میں جن آیا بیٹھا ہے کوئی؟" داداجان نے بے ساختہ کہا تو بچے بھی بے ساختہ ہنسنے لگے۔

"بھاگو یہاں سے، سارا دن شور کرتے رہتے ہو" دادی جان کی جھڑکی سن کے بچے فوراََ بھاگ گئے۔

"ابا جی، کھانا لگادوں؟" کچن سے بہو بھی ہاتھ پونچھتی ہوئی آگئی۔

"میں لگادوں گی ان کا کھانا، تم اور بچے کھالو" ساس نے نرمی سے کہا تو اس لہجے پر بہو کچھ حیران حیران سی واپس مڑ گئی۔

حاجی صاحب نے قمیض کی جیب سے والٹ نکالا، پھر ایک چیک اپنی بیوی کو پکڑا دیا۔

"یہ لو، تین لاکھ روپے کا چیک، تمہارے بڑے بھائی جی مجھے دے گئے تھے کہ ان کی طرف سے غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کردوں"۔

بازغہ خاتون نے جلدی سے چیک پکڑا اور اندر چلی گئیں۔

"بازغہ، بات تو سنو! " دادا جان نے پکارا مگر وہ جاچکی تھیں۔

حاجی صاحب سوچنے لگے کہ اردگرد کون کون غریب رشتے دار، مسکین اور مستحق لوگ رہتے ہیں جن کی ان پیسوں سے امداد کی جاسکتی ہے۔ بہت سے بیمار، بے روزگار، ضعیف اور ضرورت مند لوگوں کے چہرے تصور میں دکھائی دینے لگے۔ وہ اٹھ کے اندر چلے آئے تاکہ بیوی سے اس بارے میں بات کرلیں۔

"وہ میرے ماموں کی بیٹی نصرت پچھلے سال بیوہ ہوگئی تھی اس کے دو بچے بھی ہیں، کچھ پیسے اسے دے دیں گے، کیا خیال ہے؟" حاجی صاحب نے بات شروع کی۔

"آپ کے ماموں تو میرے بیٹے کی شادی میں نہیں آئے تھے، پتہ ہے کہ ہم کتنے چاؤ سے شادی کارڈ دینے گئے تھے لیکن پتہ نہیں کیا ساڑا پڑ گیا انھیں ہمارے پتر سے۔۔ نہ بھئی وہ شادی پر نہیں آئے تو اب ہمارے لئے ان کا ہونا، نہ ہونا ایک برابر ہے! " بازغہ خاتون نے جواب دیا۔

"میری چھوٹی پھپھو اپنے اکلوتے بیٹے کو کالج میں داخلہ دلوانا چاہتی ہے۔ پھپھا جی بے روزگار ہیں، گلزار محنتی لڑکا ہے، ڈاکٹر بن جائے گا تو کتنے انسانوں کا بھلا ہوگا، اسے کالج میں داخلے کے لئے کچھ رقم دے دیتے ہیں"۔ حاجی صاحب نے کہا۔

"پھپھو کی تو بات نہ کریں آپ، اس کے چار بھائی زندہ ہیں ماشاءاللہ، ان کا ذمہ بنتا ہے کہ بھانجے کا داخلہ کروائیں۔۔ ہمارا تو ذمہ نہیں بنتا! " بازغہ خاتون نے یہاں بھی حامی نہ بھری۔

"اچھا پھر ایسے کرتے ہیں کہ ہماری بہو کے اباجی بہت بیمار ہیں، ان کی بیماری کی درست تشخیص نہیں ہو پارہی، انھیں کسی اچھے ہاسپٹل لے جاتے ہیں اور علاج کروا دیتے ہیں، ان کا تو کوئی بیٹا بھی نہیں ہے۔ ہماری بہو بھی خوش ہوجائے گی، مزید خدمت کرے گی! " حاجی صاحب نے ایک اور مستحق کا نام پیش کیا۔

"بہو خوش ہو یا نہ ہو، میں اس سے کام لینا جانتی ہوں، میرے سامنے اس کی کیا مجال کہ چوں بھی کرسکے اور اس کے ابا تو حکیم سے علاج کروارہے ہیں، زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، ہمارے ہاتھ میں تھوڑی ہے" بازغہ خاتون نے غصے سے کورا جواب دے کر سر جھٹکا تو چٹیا ناگن کی طرح بل کھانے لگی پھر وہ کمرے سے باہر چلی گئیں کہ کہیں حاجی صاحب کو کسی اور ضرورت مند کا خیال نہ آجائے۔

حاجی صاحب سر پکڑ کے بیٹھ گئے۔ پچھلے جمعے کو جامع مسجد کے امام صاحب نے کتنی تفصیل سے بتایا تھا کہ مال میں پہلا حق قریبی رشتے داروں کا، پھر ہمسایوں کا ہوتا ہے۔ انھوں نے زور دے کے کہا تھا کہ غریب رشتے دار کو دینے سے دو گنا ثواب ملتا ہے اور یہی صلہ رحمی ہے جس کا بندے سے حساب لیا جائے گا۔

دوسرے کمرے میں بازغہ خاتون ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی تھیں، وہ تصور ہی تصور میں اپنے گلے میں ایک چمکتا دمکتا گولڈ سیٹ دیکھ رہی تھیں۔ جب وہ سونا میرے پاس ہوگا تو میرے چہرے پر بھی میرے نام جیسی چمک آجائے گی۔ بازغہ جس کا مطلب ہی چمک ہے۔ ہر شادی بیاہ کے موقع پر میرا زیور سب سے الگ ہی نظر آئے گا۔۔ وہ سوچ میں بہت آگے نکل گئیں اور یہ بھول گئیں کہ وہ پیسہ انھیں کسی نے صدقہ کرنے کے لئے دیا تھا، وہ غرباء کی امانت تھا۔ پھر انھیں نیند آنے لگی۔ بستر پر لیٹتے ہی وہ خوابوں کی وادی میں اتر چکی تھیں۔

ایک اندھیرا راستہ تھا جہاں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اونچے اونچے پہاڑ اور لمبے لمبے درخت تھے جن کے بیچ اونچی نیچی زمین پر بازغہ خاتون لڑکھڑاتی ہوئی چلی جارہی تھیں۔ "میں کہاں ہوں حاجی صاحب آپ کہاں ہیں؟" انھوں نے دو تین بار آواز لگائی مگر کوئی جواب نہ ملا۔ وہ خوف اور دہشت سے پسینے میں شرابور تھیں کہ اچانک ان کے سامنے، درختوں کے عقب سے ایک دیو قامت عجیب و غریب مخلوق آن کھڑی ہوئی۔ ابھی وہ دھیان سے اسے دیکھ نہ پائی تھیں کہ یہ کوئی جانور ہے یا کیا ہے کہ ویسی ہی ایک اور مخلوق اندھیرے سے نکل کے سامنے آگئی، پھر ایک اور، پھر ایک اور۔۔ اف میرے خدا، یہ کیا بلائیں ہیں؟ اب وہ بلائیں بازغہ خاتون کے گرد گھیرا ڈال رہی تھیں اور خوف سے بازغہ خاتون کا چہرہ سفید پڑ چکا تھا۔ وہ گنتی کرنے لگیں ایک دو تین چار۔۔ ستر بلائیں تھیں۔

"تت تم کون ہو، تمہیں کیا چاہئیے؟" بازغہ خاتون نے وحشت کے عالم میں پوچھا۔

وہ ستر بلائیں بالکل خاموش اس کے قریب آتی جارہی تھیں۔ گھیرا تنگ ہورہا تھا۔

"بازغہ! بازغہ! دور سے کہیں حاجی صاحب اسے پکار رہے تھے۔۔ وہ پیسے غریب رشتے داروں کو دے دو، صدقہ ہر بلا سے بچا لے گا! "

"اچھا، اچھا وہ پیسے میں بانٹ دوں گی جن کا حق ہے، ان میں سب بانٹ دوں گی! " بازغہ خاتون نے بمشکل یہ جملے بولے۔

"بازغہ! بازغہ! حاجی صاحب کی آواز آتی جارہی تھی، اونچی، مذید اونچی ہورہی تھی۔ پھر ایک جھٹکے سے بازغہ خاتون کی آنکھ کھل گئی۔ حاجی صاحب قریب بیٹھے بیوی کو جگا رہے تھے۔

"حاجی صاحب! بازغہ خاتون نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا، آنکھوں میں آنسو بھرے تھے۔ وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔۔ "آپ مجھ سے چیک لے لیں اور جس جس رشتےدار کا حق بنتا ہے، اسے دے آئیں، آج ہی دے آئیں! اللہ مجھے معاف کردے، مجھے بلاؤں سے بچالے"۔

حاجی صاحب اس کایا پلٹ پر حیران تھے۔

Check Also

Hikayat e Fariduddin Attar

By Muhammad Saqib