Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Camera Ki Aankh

Camera Ki Aankh

کیمرے کی آنکھ

کہتے ہیں کہ مومن اپنے عصر کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ فی زمانہ جدید ٹیکنالوجی نے اپنے ہر شعبے میں چار چاند لگا دئیے ہیں۔ جدت آئے روز دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہ جدت انسانوں کے لئے مزید تن آسانیاں لے کر آ رہی ہے۔ اس کو دوسرے رخ سے دیکھا جائے تو انسانوں کے لئے روزگار کے مواقع کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ جہاں ایک کام کے لئے ظفر موج کی ضرورت ہوتی تھی۔ اب وہی کام چند مشینوں کے ذریعے بہ احسن طریقے سے سر انجام ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے سائنس اپنی ارتقائی زندگی میں نئی جدت طرازی لے کر آ رہی ہے۔ جرائم کی نوعیت بھی بدل رہی ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کی بدولت اب جرائم کا پتہ لگانا مجرم تک رسائی بہت آسان ہوگئی ہے۔ اگر موجودہ زندگی میں صرف کیمرے کے استعمال اور اس کے اچھے یا برے مضمرات پر غور کریں تو بہت سے عقدے کھل جاتے ہیں۔

کیمرے کا استعمال ہماری زندگی میں بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ چاہے وہ انفرادی استعمال ہو یا اجتماعی استعمال یا پھر سیکیورٹی کے مسائل کے حل کے لئے ہو۔ اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ گو کہ اس کے بہت سے مثبت پہلو ہیں۔ لیکن اس کے استعمال پر موقوف ہے کہ غلط استعمال ہو رہا ہے یا کہ صحیح۔

جیسا کہ حال ہی میں میٹرک لیول کے امتحان ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک وائرل ویڈیو نظر سے گزری کہ کمرہ امتحان کا منظر عکس بند کیا جا رہا ہے۔ بظاہر یہ نقل کی روک تھام کے لئے احسن عمل ہے۔ امتحانات میں مزید نئی ٹیکنالوجی کا استعمال اب ناگزیر ہے۔ پیپر لیس امتحانات ہونے چاہئے اور انسانی مارکنگ ختم کر دینی چاہئے۔ ہمیں اپناسارا امتحانی نظام اور نگرانی صرف ایک کلک پر منتقل کر دینا چاہئے۔ اس سے طالب علم کا وقت، ملازمین کے اخراجات، کرپشن کے راستے، نقل مافیااور رٹہ سسٹم سے نجات مل جائے گی۔

آن لائن پیپر اور ساتھ ہی رزلٹ طالب علم کے ہاتھ میں پکڑا دیا جائے۔ یہ جو پیپر دینے کے بعد رزلٹ کا انتظار شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا جاتا ہے۔ بہت سوں کے لئے کوفت اور پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ داخلے دیر سے ہوتے اگلے سال کی تیاری کے لئے وقت پورا نہیں ملتا۔ ان سب قباحتوں سے نجات مل جائے گی۔

سوشل میڈیا پر جو ویڈیو گردش کر رہی وہ جنوبی پنجاب کے کسی تعلیمی بورڈ کی طرف سی نقل کی روک تھام کے لئے ایک کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کا احاطہ کر رہی ہے۔ اب معلوم نہیں کہ یہ صرف ایک تعلیمی بورڈ کی کاوش ہے یا یہ پورے پنجاب کے تعلیمی نظام کا حصہ ہے۔ بہرحال یہ ایک بہت خوش آئند بات ہے اور ایک اچھا فیصلہ ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ نقل کی روک تھام کے لئے کیمرے کے استعمال کو مزید پھیلانا چاہئے۔ لیکن اس کے منفی استعمال کو روکنا بھی ایک چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔ جیسا کہ ویڈیو میں دیکھایا گیا ہے کہ بچیوں کے کمرہ امتحان کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ان کو دیکھنے کے لئے مرد حضرات ٹک ٹکی لگا کر بیٹھے ہیں اور جو بچیاں نقل نہیں بھی کر رہی وہ بھی پردہ سکرین پر نظر آرہی ہیں۔

ہماری اخلاقی اور اسلامی اقدار اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ مرد حضرات بچیوں پر نظر رکھیں۔ جب تعلیمی اسکولز الگ الگ ہیں سٹاف الگ الگ ہے تو کیا وجہ ہے کہ بچیوں کے امتحانات پر نظر رکھنے کے لئے مرد ہی کیوں بیٹھے ہیں اور طالبات کو ہی کیوں ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ جن بچیوں کو نقل کرتے دیکھایا گیا ہے کیا ان کے مستقبل کو سیاہ نہیں کر دیا گیا ہے۔ کس قانون کے تحت بچیوں کے تصاویر سر عام سوشل میڈیا پر ڈالی گئی ہیں۔ کون اس کا ذمہ دار ہے۔ اگر آج اس پر سخت ایکشن نہ لیا گیا تو مستقبل میں ان ویڈیوز کو کسی اور رنگ میں بنا کر بچیوں کو بلیک میل بھی کیا جا سکتا ہے۔

سو ایسے گھناؤنی حرکات سے بچنے کے لئے کو ئی لائحہ عمل ہونا چاہئے۔ خاص کر بچیوں کے کمرہ امتحان کی کیمرے کے ذریعے نگرانی کے لئے ہمیں مرد حضرات ہرگز نہیں رکھنے چاہئے۔ جیسا کہ کچھ عرسہ پہلے ہمارے پنجاب کی وزیر اعلی جب ایک اسکول کے دورے پر تھیں تو ایک پرنسپل نے مرد حضرات کی موجودگی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا جو کہ صداقت پر مبنی تھا۔ نئی ٹیکنالوجی ضرور لے کر آئیں۔ پر اپنے اخلاقی معاشرتی اور اسلامی اقدار کو ضرور مدنظر رکھیں۔ بچے خاص کر بچیاں بہت حساس ہوتی ہیں۔ اس طرح کیمرے کی آنکھ سے ان کی غلطی پکڑ کے سرعام بدنام کرنا کسی کی جان بھی لے سکتا ہے۔ احتیاط بہر طور لازم ہے۔ بظاہر یہ ایک معمولی معاملہ لگتا ہے لیکن اس کے بہت دور رس نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔

Check Also

Zindagi Kya Hai

By Azhar Hussain Bhatti